اسرائیل میں چھ یرغمالیوں کی لاشیں ملنے پر حکومت مخالف مظاہروں میں شدت آگئی ہے۔ تل ابیب، یروشلم سمیت بیشتر بڑے شہروں میں احتجاج کیا گیا۔ احتجاج میں مختلف شہروں میں پانچ لاکھ سے زائد افراد نے شرکت کی۔ دوسری جانب اسرائیلی بمباری اور فوج کی کارروائیوں کے نتیجے میں مزید 47 فلسطینی شہید ہوگئے۔

درحقیقت نیتن یاہوکے خلاف مکافات عمل کا آغاز ہوچکا ہے، پورا اسرائیل ان کی وحشیانہ پالیسیوں کے خلاف سراپا احتجاج ہے،کیونکہ وہ سیاسی فوائد کے لیے یرغمالیوں کی رہائی کے لیے جنگ بندی کا معاہدہ نہیں کر رہے، جس کے سبب مزید یرغمالیوں کو بھی خطرات لاحق ہوسکتے ہیں۔ جنگ بندی اور یرغمالیوں کی رہائی کے لیے مصر میں کئی ہفتوں سے امریکا، قطر اور مصر کی ثالثی میں مذاکراتی عمل میں بھی کسی قسم کی پیش رفت نہیں ہو سکی تھی۔

اسرائیل کے وزیر اعظم نیتن یاہو کی ہٹ دھرمی ملاحظہ ہوکہ اْنھوں نے بیروت اور جنوبی لبنان کو غزہ میں تبدیل کرنے کی دھمکی دی ہے اور دْنیا نے اْن کی خواہش پر سرِ تسلیم خم کردیا ہے۔اسرائیل کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے والوں میں مسلمان، عیسائی اور یہودی سب شامل ہو رہے ہیں، یہاں مذہب کی کوئی تفریق نہیں ہے۔ ناحق قتل ہونے والے بچوں نے عالمی ضمیر کو جھنجھوڑ کے رکھ دیا ہے۔

اسرائیل کی آستین کا لہو دن رات پوری دنیا پر آشکار کر رہا ہے کہ ان معصوم ننھے منے بچوں کا قاتل وہی ہے۔ غزہ کی انتہائی سنگین صورت حال پر عالمی طاقتیں صرف تشویش کے اظہار سے زیادہ کچھ نہیں کر پا رہیں اور اقوامِ متحدہ جس کی بنیادی ذمے داری ہے کہ وہ بین الاقوامی امن و سلامتی کو یقینی بنائے وہ بھی بے بس دکھائی دے رہی ہے۔ فلسطینیوں کی نسل کشی کرنے والی صیہونی حکومت کی حمایت اور غزہ کے عوام کے خلاف بھوک کا ہتھیار استعمال کرنے کی وجہ سے امریکا پر رائے عامہ کا دباؤ بڑھ رہا ہے۔

کہا جارہا ہے کہ امریکا کی دونوں سیاسی جماعتیں اگر کسی بات پر ہم خیال ہیں تو وہ اسرائیل کی حمایت ہے۔ صدر جوبائیڈن نے تو یہاں تک کہا تھا کہ ’’ میں بھی صہیونی ہوں۔‘‘ دوسری جانب اہم نکتہ یہ ہے کہ اقوام متحدہ نے غزہ پٹی میں بھوک کو ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے اور قحط پیدا کرنے کی کوششوں کی وجہ سے صیہونی حکومت کی اس نسل کشی کی پالیسی کی مذمت کی ہے، جس کا مقصد زیادہ سے زیادہ فلسطینیوں کو قتل کرنا اور انھیں اس علاقے سے نکلنے پر مجبور کرنا ہے۔ بلاشبہ اس بات کے معتبر شواہد موجود ہیں کہ اسرائیلی حکومت غزہ میں قحط کو جنگی ہتھیار کے طور پر استعمال کرتی ہے۔

اب تک چالیس ہزار سے زائد فلسطینی شہید ہوچکے ہیں جن میں ہزاروں عورتیں اور بچے بھی شامل ہیں۔ ایک عظیم اِنسانی المیہ وقوع پذیر ہے۔ 80 فیصد آبادی بے گھر ہوچکی ہے۔ لوگ محفوظ پناہ گاہوں سے بھی باہر بھاگ رہے ہیں کہ محفوظ پناہ گاہیں بھی راکٹوں اور بمبوں کے نشانے پر ہیں۔

امداد کرنے والے ادارے بے بس ہیں کہ اداروں کو امدادی کام کرنے کے لیے بے پناہ رکاوٹیں ہیں۔ اِنسانیت کی تذلیل کا یہ عالم ہے کہ سوشل میڈیا کی بعض تصاویر میں اْنہیں فوجی ٹرکوں میں جانوروں کی طرح لے جایا جا رہا ہے۔ اقوام متحدہ کی امدادی ٹیم کے سربراہ کہہ چکے ہیں کہ غزہ میں اِنسانی بنیاد پر ہونے والے کسی آپریشن کا کوئی وجود نہیں اور لوگ یکسر بے یار و مددگار ہیں۔ دْنیا میں مشرق وسطی بالخصوص فلسطین پر نظر رکھنے والے دانشوروں اور تجزیہ کاروں کے خیال میں دْنیا کے سیاسی رہنما اِس بات کی نشاندہی کرنے میں ناکام ہوچکے ہیں کہ غزہ میں زمینی حقائق کیا ہیں۔

80 فیصد آبادی مسلسل بے رحم بمباری کی زد میں ہے اور افسوس ناک امر یہ ہے کہ نہتے لوگوں کی بھوک، بے بسی اور نسل کشی کو جنگ کے آلے کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔اِنسانی بنیادوں پر جنگ بندی کے مطالبے کی حمایت میں ناکامی فلسطینیوں کے مزید قتل، بین الاقوامی قانون کی مزید خلاف ورزیوں، جنگی جرائم کے مزید ارتکاب کی توثیق ہے اور اسرائیل کے لیے کی جانے والی سہولت کاری سے غزہ میں ایک خوفناک صورت حال پیدا ہورہی ہے۔اس صورتِ حال میں دو اہم سوال اْٹھتے ہیں۔ پہلا سوال کہ کیا اقوام متحدہ جیسا ادارہ اپنے امن و سلامتی جیسے مقاصد حاصل کرنے میں ناکا م ہوچکا ہے؟ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل اور اقوامِ عالم غزہ میں رْونما ہونے والے انسانی المیے کے باوجود کوئی حل نکالنے میں ناکام دکھائی دے رہے ہیں۔

ایسی صورتِ حال میں یوں لگ رہا ہے کہ اقوامِ متحدہ کے پلیٹ فارم سے ہی ایک جارح اور غاصب کی سہولت کاری ہو رہی ہے اگر اقوامِ متحدہ میں بڑی طاقتوں کے مفادات کو بھلے وہ انسانی حقوق کی صریح خلاف ورزی ہی کیوں نہ ہو ادارہ جاتی سہولت کاری ہوگی تو اقوامِ متحدہ کے وجود کی دلیل پر بھی سوال اْٹھیں گے۔

دوسرا اہم سوال یہ ہے کہ کیا امریکی مفادات اور اسرائیلی بالادستی بین الاقوامی امن اور انصاف سے زیادہ اہم ہیں؟ کیا سیاسی مقاصد کی تکمیل لاکھوں انسانی جانوں سے زیادہ ضروری ہے؟ اگر بین الاقوامی تعلقات میں طاقت کے فلسفے کی رو سے دیکھیں گے تو بڑی طاقتوں کے مفادات چھوٹے اور کمزور ملکوں سے زیادہ اہم ہوتے ہیں اور بین الاقوامی تعلقات میں طاقت کا کوئی ضابطہ اخلاق بھی نہیں ہوتا۔ غزہ عالمی اخلاقیات کا امتحان ہے جس کے حالات دیکھ کر لگتا ہے کہ اگر مفادات سے ٹکراتے ہوں تو اِنسانی حقوق بھی اِنسانی حقوق نہیں ہوتے یا کم از کم کمزوروں کے اِنسانی حقوق نہیں ہوتے، اگر بین الاقوامی امن اور انصاف اقوامِ متحدہ اور بڑی طاقتوں کی ترجیحات میں ہیں تو اْس کے لیے بڑی طاقتوں کو اپنے ملکی مفاد سے بالا سوچنا پڑے گا اور اقوام ِ متحدہ کو قوموں اور ملکوں کے مابین انصاف پر مبنی فیصلے کرنا پڑیں گے، بصورتِ دیگر یہ آگ اور بارود کا خونی کھیل جاری رہے گا۔

فلسطین پر اسرائیلی حملے کے تناظر میں اگر عالمی صورتحال پر غورکیا جائے تو یہ واضح ہوتا ہے کہ رفتہ رفتہ نام نہاد عالمی طاقتیں اپنا رسوخ کھوتی جا رہی ہیں۔ اسرائیل نے غزہ کے عوام کو جن سنگین مسائل میں مبتلا کر رکھا ہے اسے حماس کے خلاف اس کی انتقامی کارروائی کہنا قطعی مناسب نہیں ہوگا۔ اسرائیل، حماس کے حملے کو بہانہ بنا کر فلسطینی عوام کے خلاف انتہائی انسانیت سوز جارحیت کا جو شرمناک اور افسوس ناک کھیل، کھیل رہا ہے۔

اس سے یہ واضح ہے کہ اس کا مقصد صرف حماس کو زیر کرنا نہیں ہے بلکہ وہ اس خطے کو مکمل طور پر اُن لوگوں سے خالی کروانا چاہتا ہے جن کے اجداد نے اسرائیلی مہاجرین کو پناہ دی تھی اور اس خطے پر پناہ ملنے کے بعد ہی سے یہودیوں نے نہ صرف خطے کی جغرافیائی شکل اپنی مرضی کے مطابق ڈھالنے کے سازشی اقدامات کیے بلکہ اپنی ریشہ دوانیوں سے خطے کی تہذیب و ثقافت اور طرز معاشرت کو اپنے افکار کے سانچے میں ڈھالنے کے لیے مسلسل کوشاں رہے۔ اس کوشش کو اپنی حسب منشا کامیابی کی منزلوں سے ہمکنار کرنے کے عمل میں ان یہودی پناہ گزینوں نے اپنے محافظوں اور محسنوں کی جان و مال کا نقصان پہنچانے سے کبھی گریز نہیں کیا۔

مظلوم فلسطینیوں کے لیے کوئی جائے پناہ نہیں، وہ ملبے کے ڈھیروں پر ہیں، ریت اور پتھروں پر کیسے سو سکتے ہیں؟ بے گھر ہونے والوں کی صورتحال کسی کے لیے خوش کن نہیں ہے، لوگ مر رہے ہیں۔ یہ پہلے سے محصور علاقوں پر اسرائیلی بمباری کے حوالے سے سب سے بدترین جنگ سمجھی جارہی ہے۔ غزہ کے جنوب میں بے گھر لوگ اب سڑکوں پر ہیں اور ان کے پاس اپنی ضروریات پوری کرنے کے لیے کچھ نہیں ہے اور قابض فوج ایک ایک گھر میں گھس کر وہاں موجود لوگوں کا قتل عام کر رہی ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق تقریباً 56 لاکھ فلسطینی پناہ گزین شام، لبنان، اردن، اسرائیل کے مقبوضہ علاقوں اور غزہ میں رہتے ہیں، یہ نہایت مشکل زندگی گزارنے پر مجبور ہیں، یہ فلسطینی بنیادی انسانی حقوق سے محروم ہیں۔

فلسطینیوں کی جانب سے جنگ بندی کا مطالبہ کرنے کی آوازیں اسرائیلی بمباری کی گھن گرج میں دب رہی ہیں، اگرچہ آج کی ترقی یافتہ دنیا کے مہذب ممالک انسانی حقوق کے بارے میں نہایت حساس ہیں۔ یہ ممالک اور ان کی نامور عالمی تنظیمیں کتے، بلیوں اور دیگر جانوروں کے حقوق کے لیے بھی کوشاں رہتے ہیں، لیکن فلسطینیوں پر ہونے والے مظالم انھیں دکھائی نہیں دیتے۔ اس وقت عالمی برادری کے ساتھ ساتھ نسل کشی کرنے والی اسرائیلی حکومت کے اتحادیوں اور شراکت داروں کا فرض ہے کہ وہ اسرائیلی حکومت پر مظالم کو روکنے کے لیے دباؤ ڈالیں، تاکہ غزہ کے عوام کو مشکلات سے نجات مل سکے اور وہ موجودہ تباہ کن صورتحال سے باہر نکل سکیں۔

The post نیتن یاہو : لہوپکار رہا ہے آستیں کا appeared first on ایکسپریس اردو.



Source link

By admin