تاریخ شاہد ہے کہ جو قومیں اور ان کے رہنما و قائدین درست سمت کا تعین کرنے میں زیرک، دور اندیش، معاملہ فہم، صاحب نظر، دانا اور دوربین و نگاہ بصیرت رکھنے والے ہوتے ہیں وہ درست وقت پر درست فیصلے کرتے ہیں۔ ایسے دانا و بینا رہنما ناکامیابی پر مایوس و بددل ہونے کے بجائے ایک نئے عزم و حوصلے کے ساتھ ناامیدی سے امید کو جنم دیتے ہیں اور ناکامیوں سے کامیابیوں کی راہیں تلاش کر لیتے ہیں۔ چین اور جاپان کی مثال ہمارے سامنے ہے۔

چین نے ماؤزے تنگ کے فکر و فلسفے پر سختی سے عمل درآمد کیا اور چین کو آج دنیا کی سپرپاور کے مقام پر لا کھڑا کردیا۔ ماؤ کے بعد چین کو چو این لائی اور ڈینگ ینگ جیسے کامریڈ رہنما ملے جو اپنے قائد ماؤ کے فلسفے کے پرچارک تھے اور اس پر صدق دل سے عمل کرتے رہے۔ آج چین کو زی ژنگ پنگ کی شکل میں جو رہنما میسر ہے وہ ماؤزے تنگ کے فلسفہ معیشت پر سو فی صد یقین رکھتا ہے اور سختی سے اس پر کاربند ہے ۔

ایک سابق چینی صدر ڈینگ کے بقول چین کو آیندہ سو سال تک اپنی لائن سے انحراف نہیں کرنا چاہیے۔ صدر ڈینگ نے بیس سال کے دوران تیس کروڑ چینیوں کو غربت کی لکیر سے باہر نکالا تھا۔ اسی طرح جاپان نے دوسری جنگ عظیم میں اپنے شہروں ہیروشیما اور ناگاساکی پر دو ایٹمی حملوں کی ہولناک تباہی کے ڈھیر سے کامیابی کا ایسا سفر شروع کیا کہ آج جاپان دنیا کی مضبوط معیشت گردانا جاتا ہے۔

مذکورہ دونوں ملکوں نے محض پچاس برسوں میں یہ کامیابیاں حاصل کی تھیں اور ایک ہم ہیں کہ 77 برس گزر گئے، ہمارا سفر ترقی معکوس بنتا جا رہا ہے۔ آخر کیا وجہ ہے کہ ہم جہاں بھی نظر ڈالتے ہیں من حیث القوم ناکامیوں و مایوسیوں کا ایک سلسلہ دراز ہوتا نظر آتا ہے، جو یقینا ایک بڑا المیہ ہے۔ درحقیقت ہمارے ارباب اختیار اور رہنما و قائدین نے اپنے بابائے قوم حضرت قائد اعظم محمد علی جناح کے اصولوں، نظریات اور ارشادات کو بالائے طاق رکھ دیا اور اپنے اپنے سیاسی مفادات کے زیر اثر امور سلطنت چلانے کی کوشش کی جس میں وہ اول دن سے بری طرح ناکام ہوئے۔  آج 77 سال بعد بھی قوم منزل کی سمت تلاش کر رہی ہے۔

کیا یہ المیہ نہیں؟ ارباب اختیار کی نااہلیوں کی سزا قوم کو بھگتنا پڑ رہی ہے۔ معیشت ڈوب رہی ہے، دہشت گرد امن تباہ اور ہماری پاک سپاہ کا خون بہا رہے ہیں، سیاست دان آپس میں دست و گریباں ہیں، ایوان عدل کے فیصلوں پر سوالات اٹھائے جا رہے ہیں، دستور کی حرمت پامال ہو رہی ہے، ریاستی ادارے ایک دوسرے پر حاوی ہونے کی جنگ میں مصروف ہیں۔ رہ گئے عوام۔۔۔۔ وہ بجلی کے بھاری بلوں، غربت کے تھپیڑوں اور مہنگائی کے عذاب سے آہ و فغاں کر رہے ہیں لیکن ان کا کوئی پرسان حال نہیں۔

سپہ سالار اعظم جنرل عاصم منیر نے 77 ویں یوم آزادی پر دشمن کو بالکل واضح پیغام دیا کہ چاہے روایتی یا غیر روایتی جنگ ہو، ڈائنامک یا پرو ایکٹیو جنگی حکمت عملی، ہمارا جواب تیز، گہرا اور دردناک ہوگا۔ بالکل ہونا بھی چاہیے اور ہوگا بھی انشا اللہ کہ وقت کی ضرورت ہے ملک میں امن ہوگا تو ترقی ہوگی، خوشحالی آئے گی اور لوگ چین کی نیند سو سکیں گے، دہشت گردوں نے دو دہائیوں کے دوران ملک کو شدید نقصان پہنچایا ہے، ہزاروں جانیں ضایع ہوئیں، معیشت تباہ ہوئی اور ملک کا انفرا اسٹرکچر برباد ہو گیا۔

اب وقت آگیا ہے کہ عزم استحکام کے پرچم تلے جنرل عاصم منیر کی قیادت میں پاک فوج جو پیشہ ورانہ مہارت میں دنیا بھر میں مقبول ہے اس ’’فتنہ الخوارج‘‘ کا مکمل قلع قمع کردے۔ قوم کو یقین ہے کہ آرمی چیف کے بلند آہنگ حوصلوں کے طفیل پاک فوج کا جواب واقعی اتنا تیز،گہرا اور دردناک ہوگا کہ ’’فتنہ الخوارج‘‘ دوبارہ پاک دھرتی پر سر نہیں اٹھا سکیں گے اور یہ وطن امن کا گہوارا بن جائے گا۔ سوال یہ ہے کہ 77 سالوں سے اس ملک کے حکمرانوں ، آمروں و سیاستدانوں نے جو تیز،گہرے اور درد ناک زخم لگائے ہیں، ان سب سے حساب کون لے گا، ان کا تیز، گہرا اور دردناک احتساب کون کرے گا؟





Source link

By admin