سیاست جو کبھی ملک و قوم کی خدمت کا ذریعہ ہوا کرتی تھی جسے بعض سیاستدان عبادت اور گناہ سے نجات کا وسیلہ سمجھتے تھے اور لوگوں کے کام آ کر ان سے دعائیں لیا کرتے تھے۔ اب وہی سیاست اتنی منفی، ملک و قوم کے لیے نقصان دہ، مفاد پرست، جھوٹوں پر مبنی، گالیوں سے آلودہ، اخلاق و شرافت سے ماورا بنا دی گئی ہے کہ اب کوئی شریف النفس انسان سیاست کرنے کا نہیں سوچے گا اور صرف وہی لوگ ایسی منفی سیاست کو اچھا، کمائی کا ذریعہ سمجھ کر مفاد پرستانہ سیاسی کردار بننا پسند کریں گے جو عوام کو گمراہ کرنے کے ماہر، جھوٹوں کے ماسٹر، اپنی زبان سے پھرنے اور اپنے بیانات سے یو ٹرن لینے کو ملک و قوم کے مفاد میں قرار دیں گے۔

ماضی میں نوابزادہ نصراللہ خان اور متعدد ایسے سیاسی رہنما گزرے ہیں جنھوں نے سیاست میں رہ کر واقعی ملک و قوم کی خدمت اور اپنی جائیدادیں فروخت کر کے اپنی اصولی سیاست پر قائم رہے جنھوں نے سیاست اور اقتدار کو ملک لوٹنے، بیرون ملک جائیدادیں بنانے اور دولت کمانے کا ذریعہ نہیں بنایا بلکہ اپنی جیب سے رقم خرچ کی۔ ان کے باغات، زمینیں اور جائیدادیں تو کم ہوئیں مگر انھوں نے ملک بھر میں اپنی عزت میں اضافہ کیا اور دنیا سے احترام سے رخصت ہوئے جنھیں قوم یاد بھی رکھتی ہے۔

ملک میں درجنوں سیاسی وزیراعظم رہے مگر ان میں غالباً فیروز خان نون جیسا ایک بھی نہیں جس نے اپنی جیب سے رقم ادا کر کے گوادر خرید کر حکومت پاکستان کے حوالے کیا تھا جس کو اب تک ترقی تو کیا حکومت پینے کا پانی اور جدید مواصلاتی سہولتیں نہیں دے سکی ہے۔ 1985 کے بعد ملک میں محمد خان جونیجو، غلام مصطفیٰ جتوئی اور ملک معراج خالد کے سوا کوئی ایسا چوتھا وزیر اعظم نہیں جس پرکرپشن، ملک لوٹنے اور اندرون ملک و بیرون ملک جائیدادیں بنانے کے الزامات نہ ہوں۔

حکومت میں رہنے والے سیاستدانوں پر ملک لوٹنے اور کرپشن کے ذریعے اربوں کھربوں کی جائیدادیں بنانے کے الزامات لگا کر سیاست میں ایمانداری کے دعوے کرنے اور ملک کو تبدیل کردینے والوں سے عوام کو بڑی توقعات رہیں اور انھوں نے عوام کو ایسے ایسے سنہری خواب دکھائے تھے کہ کرپشن سے بے زار عوام نے سمجھ لیا تھا کہ ملک کو ایسا مسیحا اور نجات دہندہ مل گیا ہے جس پر کرپشن کا کوئی الزام نہیں جس کی بیرون ملک جائیدادیں ہیں نہ بیرون ملک بینکوں میں سرمایہ جس کا سب کچھ پاکستان میں ہے۔ حکمرانوں کو اقتدار میں لانے والوں نے بھی اس پر بے پناہ اعتماد کیا تھا اور انھوں نے ایمانداری کا شاہکار پیش کرکے ملک و قوم کے مفاد کو وہ وزیر اعظم دیا تھا جس کے ایک نہیں کئی چہرے تھے جو ملک میں یکساں قانون نافذ کر سکتا تھا۔ سیاست میں نوجوانوں اور نئے چہرے متعارف کرا کر واقعی ملک میں تبدیلی لا سکتا تھا۔ ملک سے لوٹا گیا سرمایہ قومی خزانے کو واپس دلا سکتا تھا۔

تبدیلی کے نعرے لگانے والے نے کہا تھا تبدیلی آ نہیں رہی بلکہ آگئی ہے۔ ہاں تبدیلی آئی تھی مگر ملک میں نہیں سیاست میں۔مخالف سیاستدانوں اوران کی فیملیز کے اپنوں، سابقہ حکومتوں کے وزیروں پر سب سے پہلے مقدمات بنوا کر انھیں قید کرایا گیا جن کی کرپشن کے ثبوت حکومت کے پاس نہیں تھے صرف بغیر ثبوت الزامات لگانے والا وزیر اعظم تھا، جس کی تائید اس کے وزیر کرتے تھے مگر عدالتوں میں پیش کرنے کے لیے ثبوت نہیں تھے جس کے نتیجے میں طویل قید بھگتنے والے تمام سیاستدان رہا ہوگئے اور آج پھر اقتدار میں ہیں اور دعوے کر رہے ہیں کہ انھوں نے تو ملک کو ترقی دلائی تھی۔

ان کے پاس آج بھی پیش کرنے کے لیے کوئی جواز نہیں کہ سیاست اور اقتدار میں رہ کر وہ اور ان کی اولاد اور خاندان اربوں، کھربوں پتی کیسے بنے اور بیرون ملک ان کے پاس جائیدادیں کہاں سے آئیں؟ ان مبینہ بدعنوانوں نے مال ضرور بنایا مگر سیاست کو اتنا آلودہ، جھوٹا، انتقامی، اقربا پرور بنایا تھا جو ایمان داری کے دعویدار نے بنا کر رکھ دیا۔ وہ ملک میں تبدیلی ضرور لایا مگر وہ تبدیلی عوام کے لیے نہیں بلکہ اپنے ملکی خوشامدیوں اور بیرون ملک رہنے والے دوستوں کے لیے تھی کہ جنھیں پاکستان بلا کر اہم عہدوں سے نواز دیا۔ تبدیلی یہ تھی کہ اہم حکومتی عہدوں پر تقرریاں جو کبھی اہلیت پر کی جاتی تھیں وہ نہ ہوئیں۔ اپنے بیانات سے یو ٹرن کو فخریہ بنا دیا کہ یہ تو بڑے لیڈر کی نشانی ہوتی ہے اور یہی تبدیلی ہے۔

ملک میں سیاست کو گندہ کرنے کے لیے جدید ٹیکنالوجی کسی نے استعمال نہیں کی تھی مگر تبدیلی کے دعویدار نے ملک کے محکمہ اطلاعات کو نظرانداز کر کے اپنی سوشل میڈیا ٹیمیں بنائیں، جن کے اجلاس کابینہ سے زیادہ وزیر اعظم کی صدارت میں ہوتے تھے۔ من پسندوں اور اپنے سوشل میڈیا کے ذریعے اپنے سیاسی مخالفین کی جو درگت بنوائی، اس کی ماضی میں مثال نہیں ملتی۔

سیاست میں گالی کلچر، جھوٹے الزامات کے ذریعے مخالفین کی اخلاقی کردار کشی کرائی گئی اور سرکاری وسائل اس پر بے دردی سے استعمال کرائے گئے۔ سیاست میں جھوٹوں کو فروغ دے کر ایسا شرم ناک بنایا گیا کہ اپنوں کو بھی نہیں بخشا اور کہہ دیا گیا کہ حکومت نے قید کے دوران ان سے جنسی زیادتیاں کرائیں، جن کی بعد میں تردید سامنے آئی۔ مگر جھوٹے الزامات لگانے اور سیاست کے نئے منفی انداز دینے والا باز نہیں آیا جو ایک دن اعتراف کر کے دوسرے دن اپنے بیان سے مکر جاتا ہے جب کہ ثبوت موجود ہیں۔ ایسی منفی سیاست کے بعد ملک میں شرافت کی سیاست ختم ہو چکی ہے۔





Source link

By admin