بلاشبہ اس وقت دنیا تیسری عالمی جنگ کے دہانے پر کھڑی ہے اور کسی بھی وقت جنگ کے شعلے بھڑک کر نہ صرف مشرق وسطیٰ بلکہ پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے سکتے ہیں اور یہ بات یقینی نظر آتی ہے کہ تیسری عالمی جنگ کا محرک اسرائیل ہی بننے والا ہے،کیونکہ نیتن یاہو سے لے کر اسرائیل کی پوری قیادت جنگی جنون میں مبتلا ہے۔ فلسطینیوں کا بڑے پیمانے پر قتل عام کر کے بھی ان کا دل نہیں بھرا ہے۔

گزشتہ دنوں تہران میں حماس کے رہنما اسماعیل ہنیہ پر قاتلانہ حملہ سراسر ایران سے اس کے میزائل حملے کا بدلہ لینا ہی نہیں ہے بلکہ اسے جارحیت پر اکسانے کا حربہ بھی ہے۔ اسماعیل ہنیہ کو ایک محفوظ اپارٹمنٹ میں کڑی سیکیورٹی کے باوجود کیسے نشانہ بنایا گیا، یہ ایک ایسا معمہ ہے جس کی ابھی تک اصلیت سامنے نہیں آسکی ہے۔

ایرانی ہائی پروفائل سیکیورٹی کے باوجود اسماعیل ہنیہ کی شہادت کیسے ہوئی، اس کے لیے کون سی ٹیکنالوجی استعمال کی گئی؟ اس پرگوکہ ایرانی ماہرین تحقیق کر رہے ہیں مگر یہ صورت حال اسرائیل کے جنگی جنون سے سرشار رہنماؤں کے لیے ضرور خوشی کا باعث ہوگی کہ ان کے حملے کی تیکنیک کو اب تک کوئی نہیں سمجھ سکا ہے۔ جہاں تک ایرانی ذرایع کا تعلق ہے تو پہلے یہ کہا گیا کہ طویل فاصلے والے میزائل سے یہ حملہ کیا گیا، مگر اب کہا جا رہا ہے کہ حملہ کم فاصلے والے میزائل سے کیا گیا ہے جس میں سات کلو بارود استعمال کیا گیا تھا اور اسے ڈرون کے ذریعے فائرکیا گیا۔

یہ حملہ اتنا شدید تھا کہ کمرے کی چھت اور دیواریں گر گئیں، جس سے اسماعیل ہنیہ اور ان کا گارڈ جام شہادت نوش کر گئے۔ اس حملے کی نہ اسرائیل نے ذمے داری لی ہے اور نہ ہی امریکا نے اسے اپنا حملہ کہا ہے۔ اس حملے نے ایرانی انٹیلی جنس کی کارکردگی پر ضرور سوالات اٹھا دیے ہیں۔ ایک ایرانی اخبار نے لکھا ہے کہ ہمیں اب دیواریں کھودنا ہوں گی اور ان میں چوہوں کو تلاش کرنا ہوگا اور ان کے کان اس طرح مروڑنے ہوں گے کہ یہ سب کے سب عبرت کا نشان بن جائیں۔ اس خبر کا مطلب ہے کہ ایران میں موساد کے جاسوسوں کی تعداد میں بہت اضافہ ہو گیا ہے جن کا خاتمہ ملک و قوم کی بقا کے لیے بہت ضروری ہے۔

اسماعیل ہنیہ پر جو کم فاصلے والے میزائل سے حملے کا کہا جا رہا ہے تو یہ حملہ ضرور تہران میں موجود کسی موساد کے جاسوس کی کارروائی ہو سکتی ہے۔ حالانکہ اس حملے کی ذمے داری اسرائیل نے قبول نہیں کی ہے مگر ایران نے اس کا ذمے دار اسرائیل کو قرار دیا ہے اور اس حملے کا بدلہ لینے کا اعلان کیا ہے۔

یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ حملہ کسی بھی وقت ہو سکتا ہے۔ ایران کی اس وارننگ کے بعد اسرائیل میں خوف و ہراس کا ماحول ہے۔ نیتن یاہو اور اس کی کابینہ کے تمام وزیر اور مشیر سخت سیکیورٹی میں اپنے گھروں میں چھپ گئے ہیں۔ اسرائیلی جنگجو قائدین تو ضرور اپنی سخت سیکیورٹی کی وجہ سے ایرانی حملے سے محفوظ رہ سکتے ہیں مگر عام لوگوں کا کیا بنے گا؟ کیونکہ اس وقت اسرائیلی دفاعی نظام ’’آئرن ڈوم‘‘ بیمار چل رہا ہے مگر اس سے کیا فرق پڑتا ہے کیونکہ اسرائیل کے دفاع کی ذمے داری تو امریکا نے اپنے ذمے لی ہوئی ہے۔

اس نے اسماعیل ہنیہ کی شہادت کے نتیجے میں ایرانی دھمکی کے فوراً بعد اپنے کئی بحری بیڑے مشرق وسطیٰ کی جانب روانہ کر دیے تھے۔ یہ تمام اسرائیل کی حفاظت کے لیے آ رہے ہیں مگر وہاں تو اس سے پہلے سے امریکی بحری بیڑے اسرائیل کی حفاظت کے لیے موجود ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اسرائیل کا وجود امریکا کی وجہ سے ہی قائم ہے۔ دیکھا جائے تو عرب ممالک اسرائیل سے ہرگز خوف زدہ نہیں ہیں وہ صرف امریکی طاقت کی وجہ سے اسرائیل کو چھیڑنے سے احتراز کر رہے ہیں۔

اب اس وقت عرب ممالک کی تشویش میں اضافہ ہونا قدرتی امر ہے کیونکہ فلسطین کے مسئلے کا حل اب لٹکتا نظر آرہا ہے، اسرائیل کی پوری کوشش ہے کہ یہ مذاکراتی عمل ختم ہو جائے اور نئی فلسطینی ریاست وجود میں نہ آسکے۔ وہ مذاکراتی عمل کو سبوتاژ کرنے کے لیے ہی کبھی حزب اللہ کے لبنان میں موجود ٹھکانوں پر حملہ کرنے لگتا ہے تو کبھی گولان کی پہاڑیوں پر اورکبھی شام پر حملہ کرنے لگتا ہے۔

اب اسماعیل ہنیہ کا قتل بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے، وہ فلسطین کی آزاد ریاست کو بھلا کیا برداشت کر پائے گا کیونکہ وہ توگریٹر اسرائیل کا خواب دیکھ رہا ہے۔ اسماعیل ہنیہ کی شہادت نے حماس کے اکثر رہنماؤں کو مشتعل کر دیا ہے، وہ اسرائیل سے آخری معرکہ کرنے کی بات کر رہے ہیں۔ ان جذباتی رہنماؤں کے نظریے سے مصر، قطر اور سعودی عرب کے رہنما اتفاق نہیں کریں گے۔ ان کے مطابق اب حالات ایسے موڑ پر آگئے ہیں کہ اب نہیں توکبھی نہیں یعنی اگر اس وقت آزاد فلسطینی ریاست قائم نہیں ہو سکی تو پھرکبھی بھی نہیں ہو سکے گی۔

مبصرین کا بھی کہنا ہے کہ فلسطین کے مسئلے کے دائمی حل کی جانب اس وقت جو مذاکرات جاری ہیں انھیں بہرحال منطقی انجام تک پہنچانا ہوگا، گوکہ اسرائیل فلسطینی ریاست کے قیام کو لیت ولعل میں ڈالنے کے لیے کبھی حزب اللہ سے الجھتا ہے تو کبھی شام پر حملہ کرتا ہے اور اب اس نے ایران میں اسماعیل ہنیہ کو شہید کرکے ایران کو مشتعل کر دیا ہے کہ وہ خطے میں جنگ چھیڑنے کا باعث بن جائے۔ ایران کو صبر سے کام لینا ہوگا اور اسرائیل کی چالوں کو ناکام بنانا ہوگا۔ اسلامی تعاون تنظیم کا اب اجلاس منعقد ہو رہا ہے کاش کہ یہ دس ماہ قبل منعقد ہو جاتا اور اس کے ذریعے اسرائیل کو غزہ پر حملوں سے روکنے کے لیے تمام اسلامی ممالک کی جانب سے انتباہ کیا جاتا تو شاید وہ اور امریکا بھی اسے ضرور اہمیت دیتے اور خطے میں آج جو صورت حال ہے ویسی نہ ہوتی۔ ساتھ ہی فلسطینیوں کا بھی اتنی بڑی تعداد میں جانی و مالی نقصان نہ ہوتا۔





Source link

By admin