[ad_1]
کمیٹی نے ’پلیسز آف ورشپ ایکٹ 1991‘ کے خلاف داخل عرضیوں پر مداخلت کرنے کی مانگ کی ہے، کمیٹی کے مطابق اس ایکٹ کے خلاف عرضیوں پر فیصلے سے متھرا معاملے پر بھی اثر پڑے گا۔
متھرا کی شاہی عید گاہ مسجد کمیٹی نے سپریم کورٹ میں ایک عرضی داخل کی ہے۔ کمیٹی نے عرضی میں ’پلیسز آف ورشپ ایکٹ 1991‘ کے خلاف داخل عرضیوں پر مداخلت کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ کمیٹی نے کہا ہے کہ اس ایکٹ کے خلاف عرضیوں پر فیصلے سے متھرا معاملے پر بھی اثر پڑے گا۔ ایسے میں ہمیں بھی اس مقدمہ میں فریق بنایا جائے۔ سپریم کورٹ میں جمعرات کو اس کے متعلق سماعت ہونی ہے۔ اس سے قبل گیانواپی مسجد کمیٹی نے بھی عدالت سے اس معاملے میں مداخلت کی مانگ کی ہے۔
واضھ رہے کہ متھرا کے شری کرشن جنم بھومی اور شاہی عیدگاہ سے متعلق تمام عرضیوں پر ایک ساتھ سماعت ہو رہی ہے۔ ہندو فریق کے ذریعہ داخل عرضیوں میں کہا گیا ہے کہ مسجد کی تعمیر ‘کٹرا کیشو مندر‘ کی 13.37 ایکڑ زمین پر کی گئی ہے، جبکہ مسلم فریق کا کہنا ہے کہ ہندو فریق کی جانب سے داخل عرضیاں پائیدار نہیں ہیں۔ 1968 میں ہوئے سمجھوتے کے حوالے سے بھی مسلم فریق نے دلیل پیش کی ہے۔ اس میں کہا گیا ہے کہ ’کیشو دیو کٹرا‘ کی 13.7 ایکڑ زمین عیدگاہ مسجد کو دی گئی ہے۔ ساتھ ہی مسلم فریق نے 1991 کے پلیسز آف ورشپ ایکٹ، لیمیٹیشن ایکٹ، وقف ایکٹ اور اسپیشل ریلیف ایکٹ کا بھی حوالہ دیا ہے۔
قابل ذکر ہے کہ مرکزی حکومت نے بابری مسجد اور رام مندر تنازعہ کا فیصلہ سناتے وقت کہا تھا کہ ’پلیسز آف ورشپ ایکٹ 1991‘ اس مقدمہ میں مستثنیٰ تھا، لیکن آئندہ سبھی معاملوں پر یہ ایکٹ نافذ ہوگا۔ اس ایکٹ کے مطابق 15 اگست 1947 سے قبل تعمیر کسی بھی مذہبی مقام کو دوسرے مذہبی مقام میں تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔ ساتھ ہی یہ بھی کہا گیا ہے کہ اگر کوئی مذہبی مقام سے چھیڑ چھاڑ کر کے اس کی اصل ہیئت بدلنے کی کوشش کرتا ہے تو اسے 3 سال کی قید اور جرمانے کی سزا ہو سکتی ہے۔ یہ قانون 1991 میں اس وقت کی کانگریس حکومت نے پاس کیا تھا۔
’پلیسز آف ورشپ ایکٹ‘ کا اصل مقصد متھرا اور کاشی سمیت مذہبی مقامات کے مالکانہ حقوق کے حوالے سے ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان قانونی تنازعہ کو روکنا تھا۔ 1991 کا ایکٹ قدیم اور تاریخی یادگاروں، آثار قدیمہ کے مقامات اور باقیات ایکٹ 1958 کے تحت آنے والے باقیات پر نافذ نہیں ہوتا ہے۔ اس میں ان مقدموں کو بھی شامل نہیں کیا گیا ہے جن پر حتمی طور پر فیصلہ دیا جا چکا ہے۔ حالانکہ اس قانون سے ایودھیا تنازعہ کو دور رکھا گیا ہے۔ اس کے پیچھے یہ دلیل پیش کی گئی کہ یہ معاملہ انگریزوں کے وقت سے ہی عدالت میں تھا۔ اس سے یہ بات صاف ہو جاتی ہے کہ 15 اگست 1947 سے قبل کے معاملے جو عدالت میں تھے اس پر یہ قانون نافذ نہیں ہوتا۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
[ad_2]
Source link