[ad_1]
اسلام آباد:
پاکستان میں سولرائزیشن کا عمل تیزی سے جاری ہے، صرف دو سے تین سال کے اندر پاکستان سولر کی بڑی مارکیٹوں میں شامل ہوگیا ہے۔
ورلڈ اکنامک فورم کے مطابق رواں مالی سال کے پہلے 6 ماہ کے دوران پاکستان نے 13 گیگا واٹ کے سولر پینل خریدے ہیں اور اس طرح پاکستان چینی سولر پینلز کا تیسرا بڑا امپورٹر بن گیا ہے۔
پاکستان کے امپورٹ کردہ سولر پینل کا حجم ملک کی مجموعی پیداوار کے 30 فیصد سے بڑھ گیا ہے، جو کہ 2023 میں 46 گیگاواٹ تھی، جس کی بنیادی وجہ گھریلوں صارفین اور کاروباری اداروں کی جانب سے بجلی کے بھاری بلوں سے جان چھڑانے کی خواہش ہے۔
جبکہ گزشتہ دہائی کے دوران سولر پینلز کی قیمتوں میں 90 فیصد کمی نے بھی سولرائزیشن کے عمل کو تیز کیا ہے، حکومت نے 17 فیصد سیلز ٹیکس کے خاتمے اور نیٹ میٹرنگ کی پالیسی متعارف کراکر سولرائزیشن کے عمل کو تیز کرنے میں مدد دی ہے۔
واضح رہے کہ حکومت کے آئی پی پیز کے غیر ذمہ دارانہ معاہدوں کی وجہ سے بجلی کافی سے زیادہ مہنگی ہوچکی ہے۔
انسٹیٹیوٹ فار انرجی اکنامکس اینڈ فنانشل اینالیسز کے مطابق پاکستان نے 2019-20 سے 2023-24 کے دوران 6 ہزار ارب روپے ( 21.5 ارب ڈالر)کیپیسیٹی پیمنٹس کی مد میں ادائیگیاں کی ہیں۔
امپورٹڈ کوئلے کے پلانٹس نے معاشی دباؤ کو بڑھایا جبکہ ماحولیات بھی متاثر ہوئی ہے، جہاں حکومت اور کمپنیوں کو سولرائزیشن کی وجہ سے ریونیو میں کمی کا سامنا ہے، وہی سولرائزیشن کے عمل سے انرجی سیکیورٹی مضبوط ہوئی ہے، ملازمتوں کے بڑھنے سے معاشی نمو میں اضافہ ہوا ہے، غیرملکی سرمایہ کاری متوجہ ہوئی ہے اور ماحولیات کا تحفظ بھی یقینی ہوا ہے۔
[ad_2]
Source link