ایک نئی رپورٹ میں قومی راجدھانی دہلی سے متعلق صحت کی خراب صورت حال کا تذکرہ ہے اور ساتھ ہی اس رپورٹ میں مرکز کے زیر انتظام اس خطہ کے مجموعی ہیلتھ بجٹ میں کمی کا بھی ذکر موجود ہے۔
دہلی کی آب و ہوا اس وقت زہریلی بنی ہوئی ہے۔ اس درمیان ’پرجا فاؤنڈیشن‘ کی ایک تازہ رپورٹ سامنے آئی ہے جس میں قومی راجدھانی میں صحت کے بگڑتے حالات پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ اس رپورٹ میں دوران خون سے جڑی بیماریوں، سانس کی بیماریوں، ہائی بلڈ پریشر اور تپ دق سے ہونے والی اموات میں اضافہ پر اظہارِ فکر کیا گیا ہے۔
28 نومبر کو جاری کی گئی اس رپورٹ میں انتہائی فکر انگیز اعداد و شمار سامنے آئے ہیں۔ اس رپورٹ میں ہائی بلڈ پریشر سے ہونے والی اموات میں 109 فیصد اضافہ کا تذکرہ ہے۔ اس میں بتایا گیا ہے کہ 2014 میں 1962 اموات ہائی بلڈ پریشر سے ہوئی تھیں جو 2023 میں بڑھ کر 4102 ہو گئی ہیں۔ اسہال کے مریضوں کی اموات میں بھی اسی طرح کا اضافہ درج کیا گیا ہے۔ اس مرض سے 2014 میں جہاں 146 اموات درج کی گئی تھیں، وہیں 2023 میں بڑھ کر یہ 292 ہو گئیں۔
اس رپورٹ میں مرکز کے زیر انتظام خطہ دہلی کے ہیلتھ بجٹ کا بھی تذکرہ کیا گیا ہے۔ اس میں بتایا گیا ہے کہ ہیلتھ بجٹ 24-2023 میں 3 فیصد تھا، جو 25-2024 میں گھٹ کر 2.5 فیصد ہو گیا۔ ساتھ ہی یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ 25-2024 میں دہلی میونسپل کارپوریشن (ایم سی ڈی) کے مجموعی بجٹ کا 12 فیصد (2061 کروڑ روپے) اور مجموعی ریاستی بجٹ کا 11 فیصد صحت کے شعبہ کے لیے مختص کیا گیا تھا۔
سانس کی بیماریاں اور فضائی آلودگی:
دہلی کی ہوا کے معیار نے لوگوں کی صحت پر تباہ کن اثرات ڈالے ہیں۔ گزشتہ 5 سالوں کے ماہانہ رجحان بتاتے ہیں کہ نومبر اور دسمبر میں لگاتار سب سے خراب ایئر کوالیٹی انڈیکس (اے کیو آئی) کی سطح درج کیے جاتے رہے ہیں۔ 2020 کو چھوڑ کر گزشتہ 8 سالوں سے سالانہ اوسط اے کیو آئی کو ’خراب‘ (اے کیو آئی 300-200) زمرہ میں رکھا گیا ہے۔ 2022 میں جولائی اور اگست کے مانسون والے مہینوں کے دوران اے کیو آئی بالترتیب 83 اور 90 تھا، لیکن 2023 میں صرف جولائی ماہ میں ہی اے کیو آئی اطمینان بخش ’76‘ تھا۔ 2023 کے نومبر میں سال کا سب سے خراب اے کیو آئی ’384‘ درج کیا گیا، جس سے 2022 اور 2023 کے درمیان رجسٹرڈ سانس کی بیماریوں میں 29 فیصد اضافہ کا پتہ چلا۔ اسی مدت میں سانس سے متعلق بیماریوں سے ہونے والی اموات میں 19 فیصد کا اضافہ ہوا۔ اس میں تپ دق اور نچلی ریسپریٹری سے متعلق بیماریوں کا بالترتیب 25 فیصد اور 21 فیصد تعاون رہا۔
زچگی اور بچوں کی صحت:
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 18-2017 کے دوران دہلی میں زچگی کے وقت ماؤں کی شرح اموات ہر ایک لاکھ زندہ ولادتوں میں 193 تھی، لیکن 24-2024 تک یہ نمبر ہر ایک لاکھ زندہ ولادتوں پر 250 اموات تک بڑھ گیا ہے۔ نوزائیدہ بچوں کی اموات کی شرح میں بھی فکر انگیز حد تک اضافہ ہوا ہے۔ 18-2017 میں ہر ایک ہزار زندہ ولادتوں پر 12 اموات کا اندراج ہوا تھا، جبکہ 24-2023 میں ہر ایک ہزار زندہ ولادتوں پر 23 اموات کا اندراج ہوا۔ اسی طرح ولادت کے بعد ایک سال کے اندر بچوں کی شرح اموات میں بھی نمایاں اضافہ دیکھنے کو ملا ہے۔ 18-2017 میں ہر ایک ہزار ولادت پر 19 نوزائیدہ بچوں کی موت ہوئی تھی، جو 24-2023 میں بڑھ کر ہر ایک ہزار ولادت پر 32 اموات ہو گئی ہے۔ مزید برآں قبل از پیدائش دیکھ بھال کے لیے اندراج کرانے والی حاملہ خواتین کی تعداد میں تشویشناک کمی واقع ہوئی ہے۔ 20-2019 اور 24-2023 کے درمیان اس تعداد میں 37 فیصد کی کمی دیکھنے کو ملی ہے۔ اس کے باوجود دہلی میں رجسٹرڈ سبھی خواتین میں سے 87 فیصد نے 24-2023 میں 4 یا اس سے زیادہ بار قبل از پیدائش ٹیسٹ کروائے۔
یہ رپورٹ شدید طور پر غذائی قلت کے شکار بچوں کی تعداد میں 16 فیصد کمی کی جانکاری دیتی ہے۔ 20-2019 میں شدید غذائی قلت کے شکار بچوں کی تعداد 3675 درج کی گئی تھی جو 23-2022 میں گھٹ کر 3099 ہو گئی۔ حالانکہ 2023 میں غذائی قلت سے متعلق بیشتر اموات صفر سے 4 سال کی عمر والے زمرہ میں ہوئیں۔ اعداد و شمار دیکھ کر پتہ چلتا ہے کہ غذائی قلت سے ہونے والی اموات میں 80 فیصد کا تعلق صفر سے 4 سال کے زمرہ سے ہوتا ہے۔
بڑھتی اموات اور ڈاٹا میں فرق:
دہلی میں اموات کی مجموعی تعداد میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ 2023 میں 88 ہزار 628 اموات درج کی گئی تھیں، جو کہ 2022 میں درج کی گئیں 81 ہزار 630 اموات سے 9 فیصد زیادہ ہے۔ اموات کے اسباب (سی او ڈی) سے متعلق ڈاٹا، جو موت کے لیے ذمہ دار بیماریوں کو ٹریک کرتا ہے، بھی فکر انگیز ہے۔ 2014 میں مجموعی اموات 74 ہزار 592 درج کی گئی تھیں اور 2023 میں اموات بڑھ کر 88 ہزار 628 ہو گئیں، یعنی اموات میں 10 فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔ حالانکہ یہ اعداد و شمار صرف ادارہ جاتی اموات کو ظاہر کرتا ہے، غیر ادارہ جاتی اموات کے لیے کوئی سی او ڈی ڈاٹا دستیاب نہیں ہے جو کہ مجموعی اموات کا تقریباً 33 فیصد ہے۔ 2023 میں رجسٹرڈ اموات میں سے 67 فیصد ادارہ جاتی اموات تھیں، اور ان معاملوں میں اموات کے اسباب سے متعلق ڈاٹا تفصیلی طور پر دستیاب تھا۔ 2014 اور 2023 کے درمیان ایک اہم روش کا جو مشاہدہ کیا گیا وہ یہ ہے کہ خواتین کے مقابلے میں مردوں کی اموات زیادہ ہوئی۔ 2023 میں 88 ہزار 628 ادارہ جاتی اموات میں 62 فیصد (55 ہزار 146) مرد تھے۔
ہیلتھ کیئر اسٹاف کی کمی:
دہلی میں صحت کی دیکھ بھال کے نظام کو سب سے بڑا لاحق مسئلہ طبی اہلکاروں کی زبردست کمی ہے۔ 31 دسمبر 2023 تک دہلی کے سرکاری اسپتال اور ڈسپنسری 32 فیصد خالی عہدوں کے ساتھ کام کر رہے تھے۔ یہ خاص طور پر فکر انگیز ہے کیونکہ دہلی کے اسپتالوں میں صرف شہر کے باشندوں کا علاج نہیں ہوتا، بلکہ آس پاس کی ریاستوں کے مریض بھی یہاں خدمات حاصل کرتے ہیں۔ علاوہ ازیں 2023 میں میڈیکل کالجوں میں لیکچررس کی 67 فیصد کمی تھی، اور پیرامیڈیکل اسٹاف کی خالی اسامیوں کی شرح بھی 2018 میں 36 فیصد سے بڑھ کر 2023 میں 43 فیصد ہو گئی۔
عام آدمی محلہ کلینک (اے اے ایم سی) کو کبھی عام آدمی پارٹی کے طبی خدمات سے متعلق اصلاحات کی بنیاد تصور کیا جاتا تھا، لیکن یہ کے حالات بھی اتنے ہی سنگین ہیں۔ ان کلینکس میں کانٹریکٹ اور جز وقتی پینل والے ڈاکٹرس کام کرتے ہیں۔ 31 مارچ 2024 تک مختلف کرداروں میں موجود اسامیوں کی جو جانکاری دی گئی وہ اس طرح تھی: ڈاکٹروں کے لیے 8 فیصد، فارماسسٹوں کے لیے 4 فیصد، اسسٹنٹ کے لیے 5 فیصد اور ملٹی ٹاسک ورکرس کے لیے 14 فیصد۔ حالانکہ حکومت دہلی کے ہیلتھ ڈائریکٹوریٹ کے ذریعہ دستیاب کرائے گئے اعداد و شمار کے مطابق یہ اسامیاں پینل میں شامل عہدوں کے لیے ہیں، نہ کہ مستقل کرداروں کے لیے۔
صحت و طب سے متعلق ضروریات اور بنیادی ڈھانچے میں کمی:
’شہری و علاقائی ترقیاتی منصوبوں کی تشکیل و نفاذ کے رہنما خطوط‘ (یو آر ڈی پی ایف آئی) کے مطابق ہر 15 ہزار افراد پر ایک ڈسپنسری ہونی چاہیے۔ اس طرح دہلی میں 1095 ڈسپنسری کی ضرورت ہے، حالانکہ 2023 میں محض 983 سرکاری ڈسپنسری اور کلینک تھے۔ یہ ضروری تعداد سے 14 فیصد کم تھے۔ یہ کمی شہر کے صحت خدمات سے متعلق نظام کے سامنے چیلنجز کو مزید بڑھا دیتا ہے، کیونکہ مریضوں کی بڑھتی تعداد کے ساتھ خدمات کی طلب بھی بڑھتی ہے۔
’پرجا فاؤنڈیشن‘ کی رپورٹ ہیلتھ سروس ڈاٹا میں نمایاں فرق کو بھی ظاہر کرتی ہے۔ رپورٹ سے پتہ چلا ہے کہ کئی سرکاری اسپتال اور ڈسپنسری سالوں سے پوری جانکاری دینے میں ناکام رہے ہیں۔ ان خامیوں نے ایک کمزور اور کافی حد تک غیر فعال ہیلتھ مینجمنٹ انفارمیشن سسٹم (ایچ ایم آئی ایس) کے ساتھ مل کر بیماریوں اور اموات کو موثر طریقے سے ٹریک کرنے میں رخنات پیدا کیے ہیں۔ مرکزی، ریاستی اور مقامی افسران کے زیر انتظام خراب ہیلتھ سروس سسٹم ڈاٹا کو یکجا کرنے اور اس کا تجزیہ کرنے کو مزید پیچیدہ بناتا ہا۔
ڈاٹا اکٹھا کرنے اور رپورٹنگ میں مسائل:
قابل ذکر ہے کہ ’پرجا فاؤنڈیشن‘ نے حق اطلاعات ایکٹ (آر ٹی آئی) کے ذریعہ مختلف سرکاری اداروں سے ڈاٹا اکٹھا کیا ہے۔ جنوری 2014 سے دسمبر 2021 تک کی مدت کے تجزیہ سے پتہ چلتا ہے کہ کئی اسپتال اور ڈسپنسری کئی مہینوں تک مکمل ڈاٹا جمع کرنے میں ناکام رہے۔ یہ قابل اعتماد، حقیقی وقت کی جانکاری کی کمی (خصوصاً بنیادی ہیلتھ کیئر سہولیات سے)، بیماریوں کے پھیلاؤ کو روکنے اور موثر عوامی صحت پالیسیوں کو تیار کرنے میں ایک اہم چیلنج ہے۔
’پرجا فاؤنڈیشن‘ کے چیف ایگزیکٹیو افسر ملند مہاسکے نے ہیلتھ سروس ڈاٹا کو سنٹرلائز کرنے کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ ’’دہلی میں رجسٹرڈ حساس بیماریوں، خاص طور سے بنیادی ہیلتھ کیئر سہولیات پر حقیقی وقت کے ڈاٹا کی عدم دستیابی، بیماریوں کے پھیلاؤ کا نقشہ کھینچنے اور ان سے نمٹنے کے لیے موثر پالیسیاں بنانے میں مسائل پیدا کرتی ہیں۔‘‘ دہلی میں ہیلتھ کیئر حکومت کی بکھری ہوئی نوعیت، جس میں مختلف اتھارٹی مختلف پہلوؤں کا مینجمنٹ کرتے ہیں، ڈاٹا کو جمع کرنے اور اس تک رسائی کو مزید مشکل بناتی ہے۔ ان چیلنجز کا موثر طریقے سے حل نکالنے کے لیے اس جانکاری کو ایک جگہ اور قابل رسائی ذخیرہ میں سنٹرلائز کرنا ضروری ہے۔
’پرجا فاؤنڈیشن‘ کی یہ رپورٹ دہلی کے ہیلتھ کیئر کے شعبہ میں فوری اصلاحات کی ایک اہم ضرورت پر روشنی ڈالتی ہے۔ بڑھتی ہوئی اموات (خصوصاً آلودگی سے جڑی وہ بیماریاں جس کی روک تھام کی جا سکتی ہے)، ملازمین کی بڑھتی کمی اور ڈاٹا جمع کرنے سے متعلق مسائل… یہ سبھی ہیلتھ کیئر سروس سسٹم پر بڑھتے دباؤ کی طرف اشارہ کرتی ہیں۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔