[ad_1]
کیا حکومت کے لایعنی قوانین کی مخالفت جرم ہے ؟ ڈاکٹر کفیل ایک مظلوم رہنما
ملک ہندوستان صفحہ ہستی پر مختلف ادیان کے باشندگان سے لہلہاتا ہوا ایک سرسبز و شاداب چمنستان ہے، اس ملک کا قانون جہاں ہر مذہب کے ماننے والوں کو اپنے مذہب کے مطابق رہنے کی پوری پوری آزادی فراہم کرتا ہے تو وہیں ہر شہری کو عدم اتفاق کی صورت میں حکومت کی تجویزات کے خلاف احتجاج کرنے کا حق بھی دیتا ہے، جس کے پاداش میں گزشتہ مہینوں جب بھارت کی بااقتدار پارٹی نے سی اے اے ، این آر سی اور این پی آر جیسے انسانیت سوز بل پارلیمنٹ سے پاس کیے تو ان مذکورہ بلوں کے خلاف بعض امن پسند حضرات اپنا آئینی حق استعمال کرتے ہوئے احتجاج پر آمادہ ہو گئے، دیکھتے ہی دیکھتے یہ معاملہ طول پکڑتا گیا ، پھر ملک کے ہر کونے سے بلا تفریق مذہب و ملت عوام سڑکوں پر اتر آئی ، پھر کیا تھا ، ظلم و استبداد کے معاملے میں منجھی منجھائی موجودہ حکومت نے ملک کا درد رکھنے والے لوگوں پر زدوکوب کی ساری حدیں پار کر دی، ان پر بیجا مظالم ڈھائے جو کہ عالم آشکار ہے۔ خیر مختلف حیلہ بازیوں اور ریشہ دوانیوں سے حکومت نے ان سبھی احتجاجات کو ختم کروا دیا، لیکن اس کے باوجود لوگوں کا خوف موجودہ حکومت کے دلوں میں گھر کر چکا تھا اور اس ڈر سے کہ کہیں یہ لوگ دوبارہ ہمارے خلاف سراپا احتجاج بن جائیں ،حکومت نے ان احتجاجات کی قیادت کرنے والے حضرات کی ایک لسٹ تیار کی اور دنگا بھڑکانے کے جھوٹے الزام میں انھیں گرفتار کرنا شروع کر دیا، یقینا گرفتار شدہ حضرات کی لسٹ تو بہت طویل ہے ، ہر ایک پر عدم آگہی کے باعث سب کا ذکر ممکن نہیں۔
ان مظلوم قائدین میں صفورہ زرگر کو کون نہیں جانتا ،جو لمبے وقت سے تہاڑ جیل میں قید تھیں، لیکن بھارت کے انصاف پسند طبقوں کی محنت سے چند شرطوں کے ساتھ انہیں ضمانت مل چکی ہے ، بالیقیں صفورہ زرگر کے لیے آواز اٹھانے والے تمام احباب قابل مبارک باد ہیں۔
لیکن ہماری یہ جنگ ابھی ختم نہیں ہوئی کیونکہ غریبوں اور مظلوموں کے لیے آواز حق بلند کرنے والا، حکومت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر باتیں کرنے والا ایک اور مرد مجاہد ڈاکٹر کفیل کئی مہینوں سے قید وبند کی زحمت برداشت کر رہے ہیں۔
واضح رہے کہ ڈاکٹر کفیل نے متنازع این آر سی ،این پی آر اور سی اے اے کے خلاف باب سرسید احمد خان پر 12 دسمبر 2019 کو ایک پرزور خطاب کیا جس میں انہوں نے حکومت کو اس کا حقیقی چہرہ دکھانے کی کوشش کی، اس کے علاوہ آپ بہار کے کئی ایک احتجاج میں بھی شریک ہوئے، پھر 30 جنوری 2020 کو ممبئی کے ایئرپورٹ سے اترتے وقت پولیس نے عوام کو ورغلا کر دنگا بھڑکانے کے جھوٹے الزام میں آپ کو حراست میں لے لیا تبھی سے آپ جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہیں، ان سب کی آڑ میں حکومت کی منشا کسی فرد پر مخفی نہیں ہے لیکن یکہ بعد دیگرے ہمارے قائدین کو جیل کی نذر کر دینا یہ کہاں کا انصاف ہے ؟ کیا حکومت کے لایعنی قوانین کی مخالفت جرم ہے؟ ڈاکٹر کفیل جیسے ملک کا درد رکھنے والے سینکڑوں حضرات ہماری نگاہوں سے اوجھل کر دیے گئے ہیں، حکومت اپنی طاقت کا ناجائز استعمال کر رہی ہے، ہمارے قائدین کے ساتھ ناروا سلوک کیا جارہا ہے، ایسے میں اگر ہم ہاتھ پہ ہاتھ دھرے خاموش بیٹھ گئے تو یقیناً بہت دیر ہو جائے گی، وہ قائدین جنہوں نے ہماری اور آئین کی تحفظ و بقا کی خاطر اپنے بیوی بچوں کی پرواہ نہ کرتے ہوئے حکومت کے خلاف آواز بلند کی اور آج جیل کی مشقت برداشت کر نے پر مجبور ہیں، تو ہماری بھی ذمہ داری بنتی ہے کہ ہم حکومت سے ان کی رہائی کیلئے پرزور اپیل کریں اور اس وقت تک سانس نہ لیں جب تک ڈاکٹر کفیل کو باعزت بری نہ کیا جائے،
ملک کی آواز، ڈاکٹر کفیل کو رہا کرو۔
محمد احمد حسن امجدی
متعلم جامعة البركات
مسکن، لکھن پوروا، رودھولی بازار ضلع بستی یوپی الہند
8840061391
[ad_2]
Source link