[ad_1]
نریندر مودی ہمارے بيٹے کی طرح ہیں ، امید ہے کہ وہ ہمارے مسائل پر دھیان دينگے
دہلی کے ‘شاہین باغ’ میں بیاسی سالہ بلقیس ایک پیاری دادی اور ماں ہونے پر خوش تھیں، جہاں وہ ایک دہائی قبل اپنے شوہر کے انتقال کے بعد منتقل ہوئی تھیں۔ انہيں پتہ نہیں تھا کہ ضعفِ صحت کے باوجود شاہین باغ کے احتجاج میں انکی معمول کی موجودگی انہیں “دا ٹائم” کے ۱۰۰ انتہائی با اثر افراد کی فہرست میں شامل کر دیگی۔
انہوں نے دا سائٹ سے ٹیلیفون پر بات کرتے ہوئے کہا ‘میں نے ہمیشہ ایک ایسا ہندوستان چاہا ہے اور اب بھی چاہتی ہوں کہ جس میں میں پیدا ہوئی وہ ایک ایسا ملک ہو جہاں کسی بھی شہری کے ساتھا مذہبی شناخت کی بنیاد پر امتیازی سلوک نہ برتا جائے۔ جب مجھے شہریت ترمیمی قانون (CAA) کے متعلق علم ہوا میں سمجھ گئی کہ ایک بار این آر سی (NRC) اور این پی آر (NPR) نافذ ہوگئے تو مسلمانوں کو اس امتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑے گا، اسی لیے میں نے احتجاج کی جگہ پر ہر روز بیٹھنے کا فیصلہ کیا-‘ وہ تھوڑا رک کر پھر بولیں :’ میں بوڑھی ہو گئی ہوں اور شاہین باغ میں بیٹھنے کے فیصلے کے پیچھے میرا کوئی ذاتی ایجنڈا نہیں تھا۔ میں نے اپنی زندگی بسر کر لی ہے، اب میں اپنے بچوں کی حفاظت اور سلامتی چاہتی ہوں۔ میں حقیقت میں مانتی ہوں کہ یہ قانون صرف میرے بچوں کے لئے نہیں بلکہ لاکھوں ہندوستانیوں کے لئے خطرہ ہے۔’
بلقیس اتر پردیش کے ہاپور ضلع کے ایک گاؤں کرانا میرپور میں ایک زرعی گھرانے سے تعلق رکھتی ہیں ۔ انکے بیٹے منظور احمد جو ایک مترجم کے طور پر کام کرتے ہیں انہوں نے کہا کہ جب ہم ایک بہتر ذریعہ معاش کی تلاش میں دہلی آئے تھے، میری ماں ہمارے والد کے ساتھ گاؤں میں رہتی تھیں۔ میرے والد کی وفات کے بعد ہی وہ ہمارے ساتھ دہلی رہنے کے لئے آئیں۔
یہ پوچھے جانے پر کہ دسمبر کے مہینے میں جب انکی ماں نے احتجاج کی جگہ پر بیٹھنے کی خواہش ظاہر کی تو ان کا رد عمل کیا تھا؟ انہوں نے جواب دیا کہ ہم نے ان سے کئی بار کہا کہ وہ دھرنے میں نہ بیٹھیں لیکن انہوں نے ہماری بات سننے سے صاف انکار کر دیا ۔ وہ صرف یہ کہتی رہیں کہ ہندوستان کی سیکولر عمارت کو بحال کرنے کے لئے یہ ضروری ہے ۔ تیز بخار ہونے کے باوجود انہوں نے آرام کرنے سے انکار کر دیا۔ ہم سی اے اے /این آر سی/ این پی آر مخالف تحریک کے دوران ان کے اس جذبے سے حیران تھے۔
انہوں نے اور بتایا کہ اس کے بعد انہوں نے احتجاج کی جگہ پر بیٹھنے کے لئے اپنی آواز کو چُنا۔ نہ وہ اور نہ ہی ہم نے کبھی یہ اندازہ لگایا تھا کہ اس کا بدلہ انہیں اس طرح دیا جائے گا ۔ جب ایک دوست نے ہمیں یہ بتانے کے لئے فون کیا کہ امّی ۲۰۲۰ کے ۱۰۰ انتہائی با اثر افراد کی ٹائم لسٹ میں جگہ پائی ہیں، ہمیں بڑی حیرت ہوئی ۔
بلقیس دادی سے پوچھے جانے پر جب انہیں بتایا گیا کہ ان کا نام دنیا کے سب سے زیادہ با اثر افراد کی فہرست میں شامل کیا گیاہے تو انہيں کیسا لگا ؟ انہوں نے جواب دیا ‘مجھے اچھا لگا۔’ لیکن اگر یہ قانون مسترد ہو جاتا تو مجھے اور اچھا لگتا-‘ تو کیا اس کا مطلب ایک بار اس وبائی بیماری کے ختم ہوجانے پر وہ سڑکوں پر پھر آئینگی؟ انہوں نے جواب دیا : فى الحال ہمیں کورونا سے لڑنا ہے ۔ ایک بار اسے شكست ہو جائے اور ہم دیکھ لیں کہ حکومت ہمارے مطالبات پر توجہ نہیں دے رہی ہے تو شاید ہم پھر سڑکوں پر آئيں گے ۔
انكا اور نریندر مودی دونوں کے نام ایک ہی فہرست میں شامل ہونے کو بتائے جانے پر انہوں نے کہا : اس فہرست نے وزیر اعظم اور اختلاف رائے رکھنے والے افراد کو برابر کر دیا ہے۔ جب احتجاج عروج پر تھا ہم نے بارہا ان سے ملاقات کرنے کی خواہش ظاہر کی ۔ لیکن ایسا کبھی نہ ہو سکا ۔ لیکن آج ہم اس فہرست میں برابری پر کھڑے ہیں ۔ انہوں نے رک کر کہا : “وہ ہمارے بيٹے کی طرح ہیں ، مجھے امید ہے کہ وہ میری درخواست پر توجہ دیں گے اور ایک بار وبائی مرض ختم ہو جانے پر ہم سے ملاقات کریں گے۔” میں ان سے کہنا چاہتی ہوں کہ ہندوستان کو اس کے اچھے دن واپس کر دیں، جن دنوں ہم مذہب کے نام پر بٹے نہ تھے۔
اختلاف رائے رکھنے والوں اور سی اے اے کے خلاف کارکنوں کے پیچھے پڑنے اور انہیں گرفتار کئے جانے کے متعلق پوچھنے پر انہوں نے کہا کہ میں چاہتی ہوں کہ ان بچوں کو رہا کیا جائے ۔ وہ کچھ غلط نہيں کر رہے ہیں، وہ تو بس اپنے حقوق کا مطالبہ کر رہے ہیں ۔
منجانب: شبینہ اختر ، دا سائٹ (The Site)
https://thesite.in/narendra-modi-is-like-my-son-hope-he-pays-heed-to-our-problems-bilkis-dadi-in-exclusive-interview-to-the-site
[ad_2]
Source link