تقریباً نصف ماہ سے وطن عزیز ہندوستان کے دارالحکومت دہلی میں کسان آندولن پورے زور و شور پر ہے، پہلے پنجاب ،ہریانہ اور اب ملک کے کونے کونے سے کسانوں کا ایک بڑا طبقہ دہلی چلوں کہ نعرے کے ساتھ دہلی کوچ کر رہا ہے ، جنہیں روکنے کے لیے حکومت نے ہر طرح کے ہتھکنڈے اپنائے، سڑکیں کھودی گئیں ، بڑے بڑے بیریئر لگا ددیے گئے، دہلی کے تمام سرحدوں پر کثیر تعداد میں پولیس اہلکاروں کو تعینات کردیا گیا، تاکہ کسی طرح ان کسانوں کو دہلی پہنچنے سے روکا جا سکے، لیکن حکومت اپنے اس مقصد میں ناکام ہوئی اور اس وقت ملک کے گوشے گوشے سے بلا تفریق مذہب و ملت کسانوں کا ایک جم غفیر دہلی پہنچ کر مسلسل 17 دنوں سے حکومت کے نئے ذرعی قانون کے خلاف سراپا احتجاج ہے اور ملک کے ہر گوشے سے کسانوں کی آمد کا سلسلہ ہنوز جاری اور ساری ہے۔
واضح رہے کہ ستمبر 2020ء کو کئی روز کی بحث کے بعد پارلیمنٹ سے موجودہ حکومت کے لائے گئے نئے ذرعی بل کو پاس کیا گیا اور صدر جمہوریہ کے دستخط کے ساتھ ہی اسے قانونی درجہ بھی مل گیا، تاہم حکومت کی طرف سے اس قانون کو کسانوں کے لیے بے انتہا سود مند بتایا جا رہا ہے،
لیکن اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا واقعی میں یہ قانون کسانوں کے لیے مفیدثابت ہوگا یا نہیں؟ اس بل میں تین شقیں بیان کی گئی ہیں جنھیں سمجھنا ہمارے لئے بے حد ضروری ہے۔
1۔ یہ قانون کسانوں کو اپنی فصل ملک کے کسی بھی حصے میں بیچنے کی آزادی فراہم کرتا ہے۔
2۔ اس قانون کے مطابق کسان اور کمپنی والے فصل پیدا ہونے کے پہلے ہی اس کی قیمت متعین کرکے کونٹریکٹ فارمنگ یعنی اس بات پر ایک معاہدہ کر سکتے ہیں، مثال کے طور پر بسکٹ بنانے والی کمپنی ایک کسان سے سمجھوتا کرتی ہے کہ آپ فصل اگاؤ میں اس کی اتنی قیمت دے دوں گا، اب وہ کسان جو گھر بیٹھے خاطر خواہ قیمت پا رہا ہے تو اسے منڈی میں جانے کی کیا ضرورت؟ تو پتہ چلا کہ اس قانون کے مطابق چند ہی سالوں میں منڈیاں بند ہونے کے دہانے پر پہنچ جائیں گی اور دوسرا نقصان یہ ہے کہ چند سالوں میں کسان اپنی بڑی فصلیں بیچنے کے لیے کمپنیوں پر مکمل طور سے انحصار کر لے گا تو منڈیوں کے بند ہو جانے کے بعد کمپنی قیمت لگانے میں اپنی من مانی کرے گی اور پھر کسان کے پاس اپنی قیمتی فصل کمپنی کو سستے داموں پر بیچنے کے علاوہ کوئی چارہ کار نہ ہوگا۔
3۔ اس قانون سے بڑے تاجر اور کمپنی والے فصل خرید کر چار ، پانچ سالوں کے لیے جمع اندوزی کر سکتے ہیں ، قانونی طور پر انھیں اس کی پوری چھوٹ مل جائے گی، پھر آئندہ سال جب فصل پیدا ہوگی تو تاجر اور کمپنی والے کسان سے فصلوں کی قیمت گھٹانے کا مطالبہ کرینگے کیونکہ اس کے پاس تو چار پانچ سال کا ذخیرہ موجود ہے، لہذا انھیں کوئی خوف نہیں، اب بیچارہ کسان کیا کرے گا؟ کانٹریکٹ فارمنگ کے ذریعے منڈی تو پہلے ہی بند ہوگئی، تو اب کسانوں کو تاجر کے کہنے کے مطابق اپنے قیمتی فصلوں کو سستے داموں میں فروخت کرنے کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہیں نہیں ہوگا۔
تو پتہ چلا کہ ہر چہار جانب سے ان تینوں قانونوں کا فائدہ محض بڑے تاجر اور کمپنیوں کو ہوگا اور بیچارہ کسان ہر طرح سے مصیبت میں پڑ جائے گا ۔
آب بخوبی جانتے ہوں گے کہ موجودہ حکومت جب سے اقتدار میں آئی تبھی سے یکہ بعد دیگرے اس کے ہر قانون اور ہر فیصلے سے بھارتی عوام کو کافی نقصان ہوا ہے،خواہ وہ نوٹ بندی ہوں یا جی ایس ٹی، گزشتہ چھ سالوں میں بی جے پی حکومت ملک کی ترقی کے حوالے سے ہر چند ناکام ثابت ہوئی ہے، رپورٹ کے مطابق جتنے احتجاجات اور دھرنے اس حکومت کے لایعنی قوانین کے خلاف ہوئے ہیں، اتنے پچھلے ستر سالوں میں کسی حکومت کے خلاف نہیں ہوئے، لیکن ہر بار یہ حکومت اپنی ہٹ دھرمی پر اڑی رہتی ہے، سی اے اے اور این آر سی کے وقت ملک بھر میں ہزاروں احتجاجات وجود میں آئے، جنہیں روکنے کے لیے ان پر لاٹھی چارج، آنسو گیس حتی کہ بعض جگہوں پہ دھارا 144 نافذ کر دیا گیا، اور افسوس صد افسوس کہ ان پر امن احتجاج کرنے والوں میں سیکڑوں افراد کو دنگا بھڑکانے کے جھوٹے الزام میں جیل کی سلاخوں کے پیچھے ڈال دیا گیا ، شاہین باغ کا احتجاج مسلسل تین ماہ سے زیادہ چلا لیکن موجودہ حکومت اپنی بے شرمی اور بے حیائی کا مظاہرہ کرتی رہی، اور اب ایک بار پھر ویسی ہی بلکہ اس سے بھی ابتر صورتحال دیکھی جارہی ہے، لاکھوں کی تعداد میں کسان اپنے حقوق اور اپنے مستقبل کے تحفظ اور بقا کے لئے دارالحکومت دہلی میں مسلسل نصف ماہ دسمبر کی سخت سردی میں سراپا احتجاج ہیں، لیکن کسانوں پر سے ظلم و زیادتی کو روکنے کا دعویٰ کرنے والی یہ حکومت اب تک ہاتھ پہ ہاتھ دھرے بیٹھی ہے۔
بڑا افسوس ہوتا ہے کہ بی جے پی کے بڑے بڑے لیڈران حیدرآباد کے نگر نگم انتخابات میں تشہیر کے لئے ہزاروں کلومیٹر جا سکتے ہیں لیکن انہیں سخت جاڑے میں سڑکوں پر کھڑے کسان نظر نہیں آتے ؟ان کی پریشانیاں نظر نہیں آتی ؟
دباؤ کے بعد موجودہ حکومت نے 9 دسمبر 2020ء کو کسانوں کے بڑے لیڈران کے ساتھ ایک نشست کا انعقاد کیا اور اس میں حکومت نے نئے زرعی قانون میں چند تبدیلیاں کرنے کی یقین دہانی کرائی لیکن جو قانون مکمل طور سے غریب کسانوں کے خلاف اور مالداروں کے حق میں ہو اسے کیسے قبول کیا جاسکتا ہے؟
کسان حکومت کی اس پیش کش پر متفق نہیں ہوئے، ان کا کہنا ہے کہ ہمیں اس بل کی کوئی ضرورت نہیں لہذا مرکزی حکومت اس بل کو واپس لے اور جب تک حکومت اسے واپس نہیں لے گی ہمارا یہ احتجاج ایسے ہی جاری اور ساری رہے گا ۔
اس احتجاج کا ا ثر رفتہ رفتہ پورے ملک میں محسوس کیا جا رہا ہے، لہذا ایسے میں ہم میں سے ہر ایک شخص کی ذمہ داری بنتی ہے کہ ہم بھی دہلی جا کر یا سوشل میڈیا پر کسانوں کے شانہ بشانہ ہوکر اس پر امن احتجاج کو کامیاب بنائیں تاکہ اقتدار کے نشے میں مدہوش موجودہ حکومت اسے اور اس جیسے تمام بے ہودہ قوانین کے نفاذ سے باز آجائے اور ملک کا ہر شہری پورے امن و امان اور فرحت و شادمانی سے اپنی زندگی گزار سکے ۔
محمد احمد حسن امجدی۔
ریسرچ اسکالر ۔ جامعۃ البرکات علی گڑھ۔
مسکن لکھن پوروا رودھولی بازار، ضلع بستی یوپی ، الہند
8840061391