[ad_1]
پاکستان تحریک انصاف کا 24 نومبر کو ہونے والا احتجاج ایک بار پھر عوامی توجہ کا مرکز بن گیا ہے۔ تحریک انصاف نے اس سے پہلے بھی کئی احتجاج کیے اور ہمیشہ مطالبات تسلیم کرانے میں ناکام رہی۔ تحریک انصاف کے احتجاجوں میں اکثر و بیشتر سیاسی قیادت غائب رہی اور جو رہنما آئے وہ بھی اکثر کارکنوں کو ڈی چوک پر تنہا چھوڑ کر رفو چکر ہوگئے، جس کی وجہ سے یہ عوامی پذیرائی حاصل کرنے اور مطالبات تسلیم کرانے میں ناکام رہے۔
گزشتہ احتجاجوں پر نظر ڈالیں تو پی ٹی آئی نے حکومت کی پالیسیوں کے خلاف شدت سے آواز اٹھائی۔ ان کے احتجاج میں کارکنوں اور پولیس اہلکاروں کے درمیان تصادم ہوا، جس کے نتیجے میں کئی افراد زخمی ہوئے اور کچھ ہلاکتیں بھی ہوئیں۔ احتجاج کے دوران عوامی و سرکاری املاک کو نقصان پہنچا، جس سے نہ صرف مالی نقصان ہوا بلکہ عوامی سہولیات بھی متاثر ہوئیں۔ سرکاری دفاتر، گاڑیاں اور دیگر املاک کو نقصان پہنچنے سے عوامی وسائل کا ضیاع ہوا۔ احتجاج کے دوران کاروباری سرگرمیاں معطل ہوگئیں، جس سے معیشت پر منفی اثرات مرتب ہوئے۔ ٹریفک کی بندش اور کاروباری مراکز کی بندش سے شہریوں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔
پی ٹی آئی کے احتجاجوں کے دوران کارکنوں اور پولیس اہلکاروں کی سلامتی ہمیشہ بڑا مسئلہ رہا ہے۔ ماضی کے تجربات کو مدنظر رکھتے ہوئے 24 نومبر کے احتجاج میں بھی خدانخواستہ کارکنوں اور پولیس اہلکاروں کے زخمی ہونے یا ہلاکتوں کا خدشہ ہے۔ تصادم کی صورت میں انسانی جانوں کا نقصان ہوسکتا ہے، جو کہ ایک بڑا انسانی المیہ ہوگا۔ احتجاج کے دوران عوامی و سرکاری املاک کو نقصان پہنچنے کا خدشہ ہے۔ اس سے نہ صرف مالی نقصان ہوگا بلکہ عوامی سہولیات بھی متاثر ہوں گی۔ سرکاری دفاتر، گاڑیاں اور دیگر املاک کو نقصان پہنچنے سے عوامی وسائل کا ضیاع ہوگا۔
احتجاج کے دوران معاشی نقصانات بھی بڑا مسئلہ ہیں۔ کاروباری سرگرمیاں معطل ہوسکتی ہیں جس سے معیشت پر منفی اثرات مرتب ہوں گے۔ ٹریفک کی بندش اور کاروباری مراکز کی بندش سے شہریوں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اس کے علاوہ احتجاج کے دوران ہونے والے نقصانات کی بحالی کےلیے حکومت کو اضافی وسائل خرچ کرنا پڑیں گے۔ احتجاج کے دوران عوامی مشکلات بھی بڑھ جاتی ہیں۔ ٹریفک کی بندش، کاروباری مراکز کی بندش اور دیگر عوامی سہولیات کی معطلی سے شہریوں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ روزمرہ کی زندگی متاثر ہوتی ہے اور عوام کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
پی ٹی آئی کے احتجاج نے حکومتوں پر سیاسی دباؤ ڈالا اور کئی مواقع پر حکومت کو مذاکرات پر مجبور کیا۔ تاہم، بدقسمتی سے ان احتجاجوں میں تشدد اور عوامی و سرکاری املاک کو نقصان پہنچا۔ تحریک انصاف کے کارکنوں نے کئی بار وفاقی دارالحکومت کو نقصان پہنچایا۔ پی ٹی وی، سپریم کورٹ اور پارلیمنٹ کی بلڈنگ ان سے محفوظ نہیں رہی حتیٰ کہ اسلام آباد میں درخت تک ان کی تخریب کاری سے نہیں بچ سکے، انہیں بھی آگ لگانے کے واقعات ریکارڈ پر ہیں۔
تحریک انصاف کے رہنماؤں کی طرف سے دھواں دار تقاریر ان تمام تر نقصانات کی ذمے دار ہیں کیونکہ وہی کارکنوں کو اشتعال دلاتے ہیں اور جوشیلے کارکن بلا سوچے سمجھے ان کی باتوں میں آجاتے ہیں اور یہاں تک پہنچ جاتے ہیں کہ اسلام آباد تو کیا چیز ہے مسجد نبوی شریف کی بے حرمتی بھی کر ڈالتے ہیں۔ بہرحال گزشتہ احتجاجوں کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ کہا جاسکتا ہے کہ تحریک انصاف کے احتجاج کی تاریخ پرتشدد واقعات سے بھرپور ہے، جس کی وجہ سے اس مرتبہ بھی کسی بھلائی کی توقع نہیں کی جاسکتی۔
عوام کو خود میں شعور بیدار کرتے ہوئے کسی رہنما کی باتوں میں نہیں آنا چاہیے۔ پہلے تو مطالبات ایسے ہونے چاہئیں جو قابل عمل ہوں اور جو مطالبات آپ کر رہے ہیں آپ کے دور میں وہ کام نہ ہوئے ہوں یا خود آپ نے ان پر عمل کیا ہو تو ضرور کریں۔ اگر آپ کے ہاتھ بھی ان سے رنگے ہوئے ہیں تو پھر آپ مطالبات نہیں کرسکتے۔ احتجاج کرنا بھی ہو تو اس کےلیے ایسا طریقہ اختیار کرنا چاہیے کہ کارکن اشتعال میں نہ ہوں اور پرامن طریقے سے قانون کی پیروی کرتے ہوئے اپنا احتجاج ریکارڈ کرائیں اور گھر جائیں۔ عوام اور کارکنوں کو نقصان سے بچانا ترجیح ہونی چاہیے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔
[ad_2]
Source link