ایک سوال کہ ‘عمران کے اندر اتنا درد کیوں ہے؟’ پر جواب دیتے ہوئے انہوں کہا کہ میں ہندی ساہتیہ کا طالب رہا ہوں۔ الٰہ آباد یونیورسٹی میں، جس دور میں مَیں بڑا ہو رہا تھا، سماج کے واقعات مجھ پر اثر ڈال رہی تھیں۔ اس وقت نظام ایک الگ طریقے سے برتاؤ کر رہا تھا اور خاص طور سے میں جس سماج سے آتا ہوں میں اس سماج کے درد کو زیادہ جلدی محسوس کرتا ہوں کیوں کہ میں ان کے درمیان میں رہتا ہوں۔ میں نے اس امتیازی سلوک اور سسٹم کے ظلم و ستم کو قریب سے دیکھا ہے اور شاعر ہوں تو ظاہر سی بات ہے درد تو ہے دل میں۔
ظلم کے دور کی تاریخ رقم کرتے ہیں
اتنا آسان نہیں یہ کام جو ہم کرتے ہیں
کاٹ دیتے ہیں سدا ہاتھ ہمارے ظالم اور
ہم ان کٹے ہاتھوں کو الم کرتے ہیں
ہم کوشش کر رہے تھے کہ اس درد کو محسوس کریں اور جب میڈیا اس درد کو، ظلم و ستم کو سپنا حصہ نہیں بنا رہی تھی، میری کوشش تھی کہ جو میرے پاس پلیٹ فارم ہے میں اس کا استعمال ظلم و ستم کو گانے کے لیے کروں اور مجھے لگتا ہے کہ میں کامیاب رہا، بہت حد تک، میں نے اپنی بات دنیا کے سامنے رکھی۔
مت سمجھنا کہ میں ایک گیت گاتا رہا
میں تو زخموں کا ماتم مناتا رہا
یہ سمجھ کر ظالم پگھل جائے گا
میں ترنم میں ماتم مناتا رہا
‘میں ظلم پر ماتم مناتا رہا’ لیکن یہ ظلم کس پر ہو رہا ہے؟ کے سوال پر عمران پرتاپ گڑھی نے کہا کہ سماج میں حاشیے پر موجود ہر انسان پر۔ وہ ہندو بھی ہے، مسلمان بھی ہے، سکھ بھی ہے اور عیسائی بھی۔ ان پر ہمیشہ سے سسٹم کر رہا ہے اور آج بھی کر رہا ہے۔ اس سے ایک لمبی لڑائی لڑنے کی ضرورت ہے۔ اس میں سب سے بڑی ذمہ داری ہے قلم کاروں کی، قلم کار اقتدار کا عارضی اپوزیشن ہے۔ ہماری ذمہ داری ہے کہ جب میں شاعر بن کر بولوں تو پھر حاکم سے آنکھ ملا کر بات کروں۔ جب میں 2010 سے 2014 کے درمیان شعر-نظم لکھ رہا تھا ‘ماں ہم بھی تیرے بیٹے ہیں۔۔۔’ وہ 2011 میں لکھی تھی، مدرسوں کی نظم 2012 میں لکھی۔ اس کے بعد حالات جیسے جیسے بدلتے گئے میں نے کوشش کی کہ میں اپنی قلم کے ساتھ انصاف کرتا رہوں۔