[ad_1]
کرناٹک کے نائب وزیر اعلیٰ ڈی کے شیوکمار نے کہا کہ ’’میرے کانگریس سکریٹریز کے ذریعہ ایجنڈا کو ظاہر کیا جائے گا، کانگریس فلسفہ و کانگریس نظریات اور مہاتما گاندھی کے پیغام کو پھر سے عام کیا جائے گا۔‘‘
کانگریس پارٹی مہاتما گاندھی کے ذریعہ کانگریس صدر کا عہدہ سنبھالنے کی 100ویں سالگرہ کے موقع پر پارٹی ورکنگ کمیٹی (سی ڈبلیو سی) کی خصوصی میٹنگ کرناٹک کے بیلگاوی (قدیم نام بیلگام) میں منعقد کر رہی ہے۔ بیلگاوی میں ہی 100 سال قبل 1924 میں مہاتما گاندھی نے کانگریس ورکنگ کمیٹی کی صدارت کی ذمہ داری سنبھالی تھی۔ اب 100 سال بعد 2024 میں پارٹی اسی جگہ پر ورکنگ کمیٹی کی میٹنگ کرنے جا رہی ہے۔
اس سے قبل کانگریس نے کہا کہ آج بی جے پی ذات و مذہب کی بنیاد پر نفرت پھیلا کر ملک کے اتحاد کو نقصان پہنچانا چاہتی ہے۔ پارٹی نے کہا کہ جہاں سے گاندھی جی نے ہندوستان کو خیر سگالی، اتحاد، محبت و تاناشاہی طاقتوں کی مخالفت کا سبق سکھایا تھا، وہیں سے کانگریس پارٹی اور اس کے کروڑوں کارکنان سچائی، عدم تشدد و محبت کے گاندھی وادی اصولوں کو از سر نو زندہ کرنے کے لیے پوری ایمانداری سے تیار ہیں۔
پارٹی کا کہنا ہے کہ ’’یہ ایک ایسا دور ہے جب بی جے پی بابا صاحب کے آئین کی دھجیاں اڑا کر، ملک کے ہیروز کی بے عزتی کر، ذات و مذہب کی بنیاد پر نفرت پھیلا کر ملک کے اتحاد کو ختم کرنا چاہتی ہے۔ نفرت اور تشدد کے اس دور میں بھی کانگریس پارٹی گاندھی کے دکھائے راستے پر چل کر، ان کے اقدار کو مضبوطی سے تھام کر آگے بڑھنے کو تیار ہے۔ کانگریس پارٹی کی ورکنگ کمیٹی کی میٹنگ اسی بیلگاوی میں 26 دسمبر 2024 کو ہونے جا رہی ہے جہاں سے گاندھی جی نے ہندوستان کو خیر سگالی، اتحاد، محبت و تاناشاہی طقتوں کی مخالفت کا سبق سکھایا تھا۔‘‘
اس میٹنگ کے ایجنڈے کے بارے میں بات کرتے ہوئے کرناٹک کے نائب وزیر اعلیٰ ڈی کے شیوکمار نے کہا کہ ’’میرے کانگریس سکریٹریز کے ذریعہ ایجنڈا کو ظاہر کیا جائے گا، کانگریس فلسفہ و کانگریس نظریات اور مہاتما گاندھی کے پیغام کو پھر سے عام کیا جائے گا۔ ہم اس معاملے میں گفت و شنید کر رہے ہیں۔‘‘ کانگریس لیڈر ایچ کے پاٹل نے میٹنگ کے تعلق سے کہا کہ ’’اس جشن سے یہ پیغام جائے گا کہ گاندھیائی فلسفہ ہندوستان اور دنیا کے لیے 1924 کے مقابلے میں کہیں زیادہ ضروری ہے۔ گاندھی کے پیغامات اور گاندھیائی فلسفہ کو نوجانوں تک پہنچایا جائے گا۔ یہی اس جشن کا مقصد ہے۔‘‘ وہ مزید کہتے ہیں کہ ’’اگر بی جے پی کہتی ہے کہ یہ مہاتما گاندھی کی کانگریس نہیں ہے، تو وہ مجھے بتائیں کہ یہ کس کی کانگریس ہے؟ یہ گاندھی کی ہی کانگریس ہے۔ ہندوستان میں 2 طبقات ہیں۔ ایک وہ جو گاندھی کے ہندوستان کے سفیر ہیں اور دوسرے وہ جو گوڈسے کے ہندوستان کے لوگ ہیں۔ اگر گوڈسے کے ہندوستان کے لوگوں کو کچھ ایسا لگتا ہے جو ان کے لیے نہیں ہے، تو میں صرف ان کے تئیں اپنی ہمدردی ظاہر کرتا ہوں۔‘‘
سابق مرکزی وزیر برائے پٹرولیم ویرپا موئلی نے میٹنگ کے بارے میں جانکاری دیتے ہوئے کہا کہ ’’مجھے لگتا ہے کہ یہ انتہائی اہم ہے، کیونکہ آج ہم سبھی 75واں یومِ آزادی اور یومِ آئین منا رہے ہیں۔ اس کی بنیاد مہاتما گاندھی کے ذریعہ رکھی گئی تھی، وہی اس ملک کے آئین اور آزادی کی اصل بنیاد تھی۔ اس ضمن میں یہ میٹنگ قومی اہمیت کا حامل ہے۔‘‘ ساتھ ہی انھوں نے کہا کہ ’’کانگریس پارٹی کے بارے میں یہ کہنا غلط ہوگا کہ یہ ملک کی آزادی کا سہرا لینے والی پارٹی ہے۔ یہ آزادی اس ملک کے لوگوں کی تھی اور اسے صحیح طریقے سے منایا جانا چاہیے تھا۔ مہاتما گاندھی کی قیادت میں ہمارے ملک نے سب سے پہلے تحریک عدم تعاون شروع کیا تھا، لیکن بی جے پی کا کہنا ہے کہ یہ مہاتما گاندھی کی کانگریس نہیں ہے، یہ اندرا گاندھی کی کانگریس ہے۔ اس پر میرا کہنا ہے کہ انڈین نیشنل کانگریس کو تحریک آزادی اور ان سبھی لیڈروں کا مقامِ کارکردگی ہونا چاہیے جنھوں نے آزادی کی لڑائی میں حصہ لیا تھا، چاہے وہ کسی بھی پارٹی سے منسلک ہوں۔ یہ ضروری ہے کہ ہم آزادی کے جذبہ کو سمجھیں اور اسے آگے بڑھائیں۔‘‘
کانگریس کے راجیہ سبھا رکن سید نصیر حسین نے بھی سی ڈبلیو سی میٹنگ کے تعلق سے اپنی بات رکھی۔ انھوں نے کہا کہ ’’26 دسمبر 1924 کو مہاتما گاندھی نے بیلگام (اب بیلگاوی) کانگریس کنونشن میں صدارتی عہدہ قبول کیا تھا او راس کے بعد کانگریس پارٹی کے صدر کی شکل میں انھوں نے پورے ملک بھر میں کام کیا۔ یہ ہماری تحریک آزادی کا ایک اہم ترین لمحہ تھا جسے ہم از سر نو یاد کرنا چاہتے ہیں اور اس کی قدر کرنا چاہتے ہیں۔ اس موقع کو یاد کرتے ہوئے ہم گاندھی جی کے اصولوں، ان کے نظریات اور ان کی زندگی کے پیغامات کی تشہیر پورے ملک میں کرنا چاہتے ہیں۔‘‘ انھوں نے مزید بتایا کہ کل سی ڈبلیو سی کی میٹنگ ہے اور ایک بڑیلی ریلی بھی منعقد ہوگی۔ اس میٹنگ میں کئی اہم قرارداد پاس کیے جائیں گے۔ آنے والے دنوں میں گاندھی جی کے نظریات کو گاؤں گاؤں، گھر گھر تک پہنچانے کے لیے ایک ٹھوس پالیسی بنائی جائے گی۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
[ad_2]
Source link