شروع ہی سے برسراقتدار پارٹی بی جے پی اپنے فضول اور بے بنیاد قوانین کے بنا پر مسلسل سرخیوں میں رہتی ہے، وطن عزیز ہندوستان میں انگریزوں کے بعد اب تک بی جے پی ایسی واحد پارٹی ہے جس کے نافذ کردہ تمام قوانین اور ہر فیصلے کی ملک بھر میں سب سے زیادہ مذمت کی گئ ہے، ابھی حالیہ دنوں ایک طرف مرکزی حکومت نے اپنے نئے زرعی قانون سے کسانوں کی نیند اڑا رکھی ہے تو وہیں دوسری جانب صوبہ اترپردیش کے وزیر اعلی نے بھی اپنے برسوں کے خواب کی تکمیل کرتے ہوئے لو جہاد پر مکمل قانون بنا دیا ، جس سے پورے صوبے کا امن و سکون خراب ہو رہا ہے، ایسی بیشتر خواتین جو اپنا ہندو مذہب چھوڑ کر اسلام قبول کیں اور پھر مسلم لڑکوں سے شادیاں کر کے برسوں سے آزادانہ اور خوشحال زندگی گزار رہی تھیں، اس قانون سے ان کی زندگیاں اجیرن ہوتی ہوئی نظر آرہی ہیں، ساتھ ہی اس قانون کی آڑ میں پولیس اہلکاروں کے ساتھ ساتھ بہت سے بھاجپائی بھی مسلمانوں کو پریشان کرکے ان پر بیجا ظلم و ستم کر رہے ہیں۔
بتاتا چلوں کہ 24 نومبر 2020ء کو یوپی راجیہ سبھا میں لو جہاد پر قانون لایا گیا، جسے لانے کا مقصد حکومت کے مطابق یہ بتایا جا رہا ہے کہ بہت سے مسلم لڑکے ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت اپنے نام بدل کر ہندو لڑکیوں کو پہلے محبت کے جال میں پھنساتے ہیں اور ان سے شادی کرنے کے نام پر ان کا دھرم پریورتن کرتے ہیں ،لہذا اس کے روک تھام کے لیے یہ قانون لایا گیا، اس قانون میں ایسا کرنے والے مسلم افراد پر پچاس ہزار روپے کا جرمانہ، تاہم دس سال کی قید کی سزا سنائی گئی ہے ،
حالانکہ معاملہ تو اس کے بر عکس نظر آتا ہے کیونکہ سوشل میڈیا کی خبروں کے مطابق آر ایس ایس اور بجرنگ دل کے لڑکے تیزی سے مسلم لڑکیوں کو اپنے جال میں پھنسا کر ان کا مذہب تبدیل کرنے میں لگے ہیں اور اس کے پیچھے ان لوگوں کی تشکیل شدہ ایک ٹیم کام کر رہی ہے، لیکن ان پر کوئی سوال نہیں اٹھاتا، ان کے لیے کوئی قانون نہیں بنتا ،دراصل بی جے پی اس جیسے تمام لایعنی قوانین کے ذریعے اپنی اسلام اور مسلم منافرت کا کھل کا مظاہرہ کر رہی ہے ۔
یہ کیسا انصاف ہے ؟ اگر کوئی مسلم لڑکا کسی ہندو خاتون سے شادی کر لے تو اسے لو جہاد اور کوئی ہندو لڑکا مسلم خاتون کے ساتھ ایسا کرے تو اسے گھر واپسی کا نام دے کر ان کا خیر مقدم کیا جاتا ہے،تاہم ان کے لیے وظیفے بھی مقرر کیے جاتے ہیں لیکن حکومت اس پر خاموش بیٹھی رہتی ہے۔
سوشل میڈیا کے خبروں کے مطابق اس قانون کے نفاذ کے بعد پورے صوبے میں پولیس کے ذریعے تحقیق شروع ہو چکی ہے اور اس کی آڑ میں کثرت سے مسلم لڑکوں کو جیل میں ڈالا جارہا ہے حتیٰ کہ وہ لڑکیاں جن کے اسلام لانے کے بعد شادی کو زمانہ گزر گیا اور وہ لوگ جو اپنی زندگی میں خوش حال ہیں لیکن بھاجپائی شر پسندوں کے ذریعے انہیں پریشان کیا جاتا ہے اور پھر مسلم لڑکے کو جیل میں بند کر دیا جاتا ہے۔
کسی بھی قانون کو عمل میں لانے کی ذمہ داری پولیس پرشاسن کی ہوتی ہے لیکن اس معاملے میں ان بھگوادھاریوں کا تشدد اور اس میں ان کی تیزی سے مداخلت کو دیکھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ لو جہاد قانون کے لانے کا مقصد محض انھیں غنڈہ گردی کی آزادی فراہم کرنا اور مسلم طبقہ کو جیل کے اندر ڈال کر مسلمانوں کا بیجا استحصال کرنا ہے۔
لہذا ہمیں چاہیے کہ جس طرح دہلی کی سڑکوں پر نصف ماہ سے کسان حکومت کے نئے زرعی قانون کے خلاف برسرپیکار ہیں ویسے ہی ہم بھی اس لو جہاد قانون کی پرزور مخالفت کریں تاکہ قانون کی آڑ میں فرقہ پرستوں کو مسلمانوں پر ظلم و جبر سے روکا جاسکے ۔
اللہ ہمارا حامی و ناصر ہو۔
محمد احمد حسن امجدی
ترجمان: تنظیم جماعت رضاۓ مصطفی گورکھپور
ریسرچ اسکالر جامعۃ البرکات علی گڑھ
مسکن ۔ لکھن پوروا،رودھولی بازار،ضلع بستی، یوپی، الہند
8840061391