آساں نہیں مٹانا نام و نشاں ہمارا… جمہوری ملک میں جمہوریت کا خون…!!
آزادی کی شب خاک و خوں سے گزر کر نمودار ہوتی ہے…۱۹٤۷ء میں بھارت آزاد ہوا…اُس تحریکِ آزادی کی بنیاد اکابرِ ہند بالخصوص علامہ فضل حق خیرآبادی، علامہ کفایت علی کافیؔ مرادآبادی، علامہ صدرالدین خاں آزردہؔ دہلوی، علامہ ڈاکٹر وزیر احمد خاں اکبرآبادی، علامہ رضا علی خاں نے ۱۸۵۷ء میں رکھی…قربانیاں دیں…جان نچھاور کی…مظالم سہے… زنداں کی اسیری گوارا کی…انڈمان کی قیدِ تنہائی سے گزرے…کالا پانی کی سزا ہوئی… انگریزی استبداد کے خلاف آواز بلند کی…ڈَٹے رہے…صف در صف انگریز کو للکارا…کارواں بڑھتا رہا…
آزادی کی شمع جلتی رہی…پروانے نثار ہوتے رہے…زمینی کاوش جاری رہی…عملاً اور تحریراً بھی مجاہدین محاذ پر جمے رہے…ہندستان کی زمیں اس کی گواہ ہے…پھر! میر جعفر و میر صادق خریدے گئے…جدوجہد کو سبوتاژ کرنے کے لیے سیم و زر لُٹائے گئے مشرکین نے الگ کوششیں کیں؛ کہ مسلمانوں کو کم زور کیا جائے…’’سوراج‘‘ کے قیام کے لیے مشرکین نے مراسمِ اسلامی کو نشانہ بنایا…دو، دو محاذ تھے…عزم و یقیں کی تاریخ رقم کی گئی…
*صبحِ آزادی اور فرقہ پرستی:*
۱۹٤۷ء میں ملک آزاد ہوا…ایک ملک بٹوارے کے نتیجے میں وجود پایا… وارثانِ لال قلعہ و تاج محل نے ہندستان سے ہجرت گوارہ نہ کی…یہ خواجہ غریب نواز کا دیس ہے…خواجہ قطب الدین بختیار کاکی کا دیس ہے…حضرت محبوبِ الٰہی وسرکار مخدومِ سمناں کا دیس ہے…یہیں طوطیِ ہند حضرت امیر خسرو نے نغمۂ روح سے؛ باطن سرشار کیا…یہاں کی فضائیں حسانُ الہند علامہ آزادؔ بلگرامی کی عربی و فارسی نعتوں سے گونج رہی ہیں… بلبلِ باغِ جناں اعلیٰ حضرت نے نغمۂ نعت گنگنایا…
یہی کہتی ہے بلبلِ باغِ جناں کہ رضاؔ کی طرح کوئی سحر بیاں
نہیں ہند میں واصفِ شاہِ ہدیٰ، مجھے شوخیِ طبع رضاؔ کی قسم
ہند میں صوفیاے کرام نے خانقاہیں سجائیں…مسجدیں بنائیں…علما نے مسندِ تدریس لگائی…ملک کوسجایا، سنوارا، نکھارا…محبتوں کا درس دیا…خوشبوؤں سے بسایا…یہاں صدیوں مسلم حکومت رہی…انصاف کا بول بالا رہا…اخوت کی سوغاتیں تقسیم ہوئیں…اَب حالات بدل گئے… نفرتوں کی آندھیاں چلائی جا رہی ہیں…فرقہ پرستی کے بیج بوئے جا رہے ہیں…دستورِ ہند میں نقب لگائی جا رہی ہے…ہندستانیوں کے شہری حقوق اور آزادی چھیننے کی کوشش کی جا رہی ہے…ملک کے قانون کی دھجیاں صاحبانِ اقتدار بکھیر رہے ہیں…دستور کی دفعات ۱۴؍۱۵؍۲۱؍ کی مخالفت میں قانون پاس کیے جا رہے ہیں…ان کی نفرتوں کی آندھیاں پورے ملک کو خاکستر کرنے پر تُلی ہوئی ہیں…
*انصاف کا خون:*
ہندستان کی آزادی کے بعد سے مسلسل مسلمانوں پر یورش رہی ہے…مسلم معاشرت، تمدن، تہذیب و ثقافت پر حملہ رہا ہے…مذہبی آزادی کو کچلنے کی کوششیں رہی ہیں…فسادات میں نسل کشی کی گئی…عصمتوں کو لوٹا گیا…ماب لنچنگ کے ذریعے بے گناہوں کو قتل کیا گیا…شریعتِ اسلامی کے مغائر قانون بنائے گئے…ہندستانی مسلمانوں کو اذیتیں دی گئیں…زخم دیے گئے…’’بابری مسجد‘‘دن دہاڑے شہید کر دی گئی…سپریم کورٹ میں معاملہ گیا…مسلمانوں نے اُمید رکھی کہ شہید کرنے والے ’’فسادیوں‘‘ پرکارروائی کی جائے گی…انصاف کے تقاضے پورے کیے جائیں گے…لیکن معاملہ اُلٹا ہوگیا…اکثریت کو اہمیت دی گئی…انصاف کو تج دیا گیا…اور زمین اُٹھا کر مندر کے لیے دے دی گئی…جمہوری ملک میں منصفانہ اُصول بالاے طاق رکھ دیے گئے…کیا یہی انصاف ہے؟…اگر عدلیہ بھی دیانت و انصاف کی بنیادیں کھو دے تو پھر جمہوریت کا تحفظ کیسے ہوگا؟
حال کا المیہ یہ ہے کہ: اقتدار کی منزل سے جب بھاجپا دوبارہ سرفراز ہوئی؛ فوراً بابری مسجد کا فیصلہ مسجد کے خلاف ظاہر کیا گیا…آسام میں این آر سی جو پہلے سے نافذ تھی؛ جس کا تعلق شہریت (Citizenship) سے تھا… جو وہاں کے سیاسی و سرحدی حالات کے نتیجے میں رونما ہوا…اب اسے پورے ملک میں نافذ کرنے کا اعلان ہے…شہریت سے متعلق کاغذات نہ پیش کر پانے والے بھارتیوں کو گھس پیٹھ قرار دینے کا عندیہ دیا گیا…پھر زَد میں آنے والے غیر مسلموں کو شہریت دینے کے لیے CAAلایا گیا…جس میں صرف مسلمانوں کو ہی باہر رکھا جائے گا…یہ مذہب کی بنیاد پر تعصب و فرقہ پرستی ہے… جو دستورِ ہند کی روح کے منافی بھی ہے…اوّل تو جن کے اَجداد نے ہندستان آزاد کرایا؛ ان سے شہریت کا ثبوت مانگنا بھارتیوں کی توہین ہے…پھر کاغذات کی عدم موجودگی کا بہانہ بنا کر انھیں وِدیسی قرار دینا ظلم و دہشت گردی ہے… ملک کی سیکولر شبیہ خراب کرنے والی حکومت مسلسل تشدد پر آمادہ ہے…بھارتی قانون کے منافی بل کو قانونی شکل دے کر مسلمانوں اور اقلیتی طبقوں سے انتقام کا یہ آغاز ہے…
*جاگتے رہیں:*
اب وقت ہے جاگنے کا…بیدار ہولینے کا…ہمیں آئینِ ہند نے پُرامن احتجاج کا حق دیا ہے…اب پورے ملک میں انصاف پسند عوام میدان میں اُتر چکی ہے…عوام نہتی ہے…پُرامن ہے… قانون کی حفاظت کے لیے مسلسل آواز بلند کر رہی ہے…تعلیمی اداروں، یونیورسٹیوں کے طلبہ اور باشعور ہندوستانی جمہوری طریقے سے احتجاج کر رہے ہیں…مودی حکومت جھکنے تیار نہیں…ان کا منصوبہ بھارت کو ’’ہندوراشٹر‘‘ بنانے کا ہے…منواسمرتی کا ہے…اسی لیے آئین کے سیکولر مزاج کو بدلنے کی کوشش کی جا رہی ہے…ڈاکٹر بابا صاحب امبیڈکر کے بنائے ہوئے اس قانون کو بدلا جا رہا ہے؛ جس سے بھارتیوں کا اَمن و انصاف برقرار ہے … دستورِ ہند سے کھلواڑ کر رہے ہیں…مظاہرین پر تشدد کیا جا رہا ہے…طاقت سے جمہوری آواز نہیں روکی جا سکتی…جب غبار چھٹے گا…لہو کی سرخی سے صبحِ تابندہ نمودار ہوگی…بھارتیوں کی جدوجہد رنگ لائے گی…انصاف کا سویرا طلوع ہوگا…لیکن اس کے لیے قربانیوں کی کئی شاموں سے گزرنا ہوگا…
ابھی یہ مشاہدہ ہو رہا ہے کہ…مودی حکومت کو میر جعفر و میر صادق کی تلاش ہے…ماضی میں بھی بِکنے والے بِکتے رہے…مسلمان زندہ رہے…حال میں بھی لگتا ہے کہ مولوی و بے شرع صوفی خریدے جائیں گے…اور جنٹل مین بھی…جو قوم کی کشتی غرق کرنے پر تُلے ہوں گے…اِس لیے یقیں محکم اور عمل پیہم کی راہ سے رُو گرداں نہ ہوں…عزائم بلند رکھیں…مشیت کی مدد آئے گی…عمل کی شاہراہ اگر آراستہ ہو گی تو خدائی مدد کے توشے ضرور نازل ہوں گے…ظلم کی شام چھٹے گی…اُمید کے اُجالے ظاہر ہوں گے…لیکن! اس کے لیے ہمیں قائدینِ انقلابِ آزادیِ ہند اور اسلافِ کرام بالخصوص علامہ فضلِ حق چشتی خیرآبادی کے نقوشِ قدم پر چلنا ہوگا…ممکن ہے کہ ہر طرح کی قربانیاں دینی پڑے… نئی آزادی کی تگ و دَو کرنی ہوگی…آئینِ ہند کی حفاظت کی خاطر مسلسل بیدار رہیں…شاہراہِ ایمان پر استقامت کے ساتھ چلیں…راہ اگر طویل ہو جائے تو مایوس ہرگز نہ ہوں…منافقین و مشرکین کے ایجنٹوں سے باخبر رہیں…تا کہ بھارت کا حسن پھر لوٹ آئے…لُٹیرے انجام کو پہنچیں…
آج بھی ہو جو براہیم سے ایماں پیدا
آگ کر سکتی ہے اندازِ گلستاں پیدا
٭ ٭ ٭
نوٹ: مضمون ایک سال قبل لکھا گیا… یوم جمہوریہ کی مناسبت سے پیش کیا گیا….
(٢٦ جنوری ٢٠٢١ء)