[ad_1]
طبی ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ اینٹی بائیوٹک ادویات کے غیر ضروری اور غیر منطقی استعمال، خاص طور پر ہسپتالوں میں اینٹی بائیوٹکس کے بے جا استعمال سے ایسے جرثومے وجود میں آ رہے ہیں جن کے نتیجے میں ہونے والی بیماریوں کے علاج کی مدت میں بے تحاشہ اضافہ ہو رہا ہے۔
ان خیالات کا اظہار ماہرین نے وزارت صحت اور قومی ادارہ صحت (این آئی ایچ) کی جانب سے اینٹی مائیکروبیل ریزسٹنس (اے ایم آر) کے موضوع پر منعقد ہونے والے تیسرے قومی سمپوزیم سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔
قومی ادارہ صحت کی سائنسدان ڈاکٹر عمیرہ ناصر نے ایک تحقیق کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ 11 ہسپتالوں میں کی جانے والی ایک تحقیق کے مطابق 91 فیصد مریضوں کو اینٹی بائیوٹکس تجویز کی گئیں، جن میں سے زیادہ تر غیر ضروری تھیں۔
انہوں نے کہا کہ بیشتر ہسپتالوں میں اینٹی بائیوٹکس کے رہنما اصول موجود نہیں، اکثر ہسپتالوں میں لیبارٹری ٹیسٹ کی بنیاد پر نسخے تجویز نہیں کیے جاتے، جس کی وجہ سے مزاحم جراثیموں کی موجودگی میں اضافہ ہوتا ہے۔
ڈاکٹر عمیرہ ناصر کا کہنا تھا کہ اینٹی بائیوٹکس ادویات کے خلاف مزاحمت رکھنے والے بیکٹیریا اور دیگر خرد بینی اجسام کے نتیجے میں ہونے والی بیماریوں کے علاج کا نہ صرف دورانیہ طویل ہوتا ہے اور اخراجات میں اضافہ ہوتا ہے بلکہ اس کے نتیجے میں اموات کی شرح میں بھی تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ادویات کے خلاف مزاحمت رکھنے والے بیکٹیریا کی وجہ سے پیشاب کی نالی اور خون کے انفیکشنز بڑھ رہے ہیں۔
قومی ادارہ صحت کے ایگزیکیٹو ڈائریکٹر ڈاکٹر محمد سلمان نے اس موقع پر کہا کہ اینٹی مائکروبیل ریزسٹنس کی وجہ سے انفیکشنز کا بوجھ بڑھ رہا ہے اور اس کے نتیجے میں متعدی بیماریوں کا علاج مشکل ہوتا جا رہا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ادویات کے خلاف مزاحمت رکھنے والے جراثیموں کی وجہ سے علاج کا نہ صرف دورانیہ طویل ہو رہا ہے بلکہ اخراجات میں بے پناہ اضافہ ہو رہا ہے اور دوسری جانب اموات کی شرح بھی بڑھتی جا رہی ہے۔
وزارت صحت کی ڈپٹی ڈائریکٹر ڈاکٹر عطیہ ابڑو نے کہا کہ اے ایم آر نہ صرف انسانی صحت کو بلکہ غذائی تحفظ کو بھی خطرے میں ڈال رہا ہے کیونکہ یہ لائیو اسٹاک اور زرعی پیداوار کو متاثر کر رہا ہے۔
انہوں نے خبردار کیا کہ مزاحم جراثیم زرعی پیداوار میں کمی کا باعث بن سکتے ہیں اور ماحولیاتی آلودگی میں اضافہ کر سکتے ہیں، جس سے مزاحمت کے جینز مزید پھیل سکتے ہیں۔
[ad_2]
Source link