اشتہار کی اشاعت کے بعد پلکڑ ضلع انتظامیہ نے پی آر ڈی (پبلک رلیشن ڈپارٹمنٹ) سے ایک رپورٹ طلب کی ہے تاکہ اس بات کا پتہ لگایا جا سکے کہ کیا میڈیا سرٹیفکیشن اینڈ مانیٹرنگ کمیٹی نے اشتہار کو منظوری دی ہے۔
کیرالہ کے پلکڑ میں 19 نومبر کو سیاسی کشیدگی اس وقت بڑھ گئی جب سی پی آئی (ایم) نے ایک اشتعال انگیز اشتہار اخبار میں شائع کیا۔ اس اشتہار میں یو ڈی ایف (یونائٹیڈ ڈیموکریٹک فرنٹ) کو ہدف بنایا گیا تھا اور خاص طور پر سندیپ واریر توجہ کا مرکز تھے۔ دراصل سندیپ واریر قبل میں بی جے پی لیڈر تھے اور اب انھوں نے کانگریس کی رکنیت اختیار کر لی ہے۔ اشتہار میں آر ایس ایس کے ساتھ واریر کے ماضی کے روابط کو نمایاں کیا گیا ہے۔
قابل ذکر ہے کہ پلکڑ اسمبلی سیٹ پر 20 نومبر کو ووٹ ڈالے گئے ہیں اور مذکورہ متنازعہ اشتہار اس سے عین قبل شائع کیا گیا۔ اس سیٹ پر ضمنی انتخاب ضروری ہو گیا کیونکہ یہاں سے کانگریس رکن اسمبلی شفیع پرمبل نے وڈکّرا لوک سبھا سیٹ پر کامیابی حاصل کرنے کے بعد اسمبلی رکنیت سے استعفیٰ دے دیا تھا۔ بہرحال، سی پی آئی (ایم) نے متنازعہ اشتہار 2 اخبارات میں شائع کیا جو ممتاز سنّی طبقہ سے جڑے ہوئے تھے۔ یہ اخبارات ہیں ’سراج‘ (سنی کنتھاپورم کا ترجمان) اور ’سپربھاتم‘ (سمستھا سے منسلک)۔ اشتہار میں سندیپ واریر کے پرانے بیانات اور فیس بک پوسٹس شامل کیے گئے ہیں۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ یہ اشتہار سی پی آئی (ایم) کے اخبار ’دیسابھیمانی‘ میں شائع نہیں ہوا تھا۔
اس اشتہار کے ایک حصے میں لکھا گیا ہے ’’سوشل میڈیا اور چینلز پر سندیپ واریر کے ذریعہ حمایت یافتہ فرقہ وارانہ پروپیگنڈہ خوفناک تھا۔ انھوں نے اقلیت مخالف خیالات کے معاملے میں ششی کلا (ہندو ایکیاویدی لیڈر) کا بھی مقابلہ کیا۔ کانگریس نے ایک حقیقی سیکولر شخص پی سرین کو نکال کر فرقہ وارانہ زہر کو جگہ دی ہے۔‘‘
اشتہار کے مبینہ فرقہ وارانہ لہجہ سے واضح ہوتا ہے کہ یہ ایک خاص طبقہ کو مدنظر رکھتے ہوئے شائع کیا گیا ہے۔ اس اشتہار کی اشاعت کے بعد کچھ تلخ رد عمل سامنے آئے ہیں۔ خود واریر نے سی پی آئی (ایم) پر بی جے پی کی فنڈنگ سے اشتہار شائع کرنے کا الزام عائد کیا ہے۔ پلکڑ سے کانگریس امیدوار راہل ممکوٹاتھل نے سی پی آئی (ایم) کے ہتھکنڈوں کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ اگر وہ یہ سمجھتی ہے کہ اس طرح کے بیان انھیں (مسلمانوں کو) مشتعل کر سکتے ہیں تو وہ اس طبقہ کی سیاسی بیداری کو کمتر تصور کر رہی ہے۔
پلکڑ ضمنی انتخاب سے عین قبل شائع ہونے والے اس اشتہار کے وقت نے سیاسی تنازعہ کو بڑھا دیا ہے۔ اشتہار کی اشاعت کے بعد پلکڑ ضلع انتظامیہ نے پی آر ڈی (پبلک رلیشن ڈپارٹمنٹ) سے ایک رپورٹ طلب کی ہے تاکہ اس بات کا پتہ لگایا جا سکے کہ کیا میڈیا سرٹیفکیشن اینڈ مانیٹرنگ کمیٹی نے اشتہار کو منظوری دی ہے۔ انتخابی حکام نے بھی اس بات کی تصدیق کی ہے کہ پی آر ڈی کو تحقیقات کے لیے کہا گیا ہے۔
اس اشتہار میں سندیپ واریر کی ان پرانی فیس بک پوسٹس کے اسکرین شاٹ کا استعمال کیا گیا ہے جس میں مسئلہ کشمیر کے تعلق سے متنازعہ ریمارکس ہے اور آر ایس ایس کی وردی میں ان کی تصویر بھی شامل ہے۔ واریر کے کچھ ایسے تبصرے بھی ہیں جو تجویز کرتے ہیں کہ شہریت ترمیمی قانون (سی اے اے) کیرالہ میں نافذ کیا جائے گا۔ اس اشتہار میں اشتعال انگیز سرخیوں کا استعمال کیا گیا ہے، مثلاً ’کیا کوئی اس زہریلی زبان کو قبول کر سکتا ہے؟‘ اور ’اوہ، یہ بدقسمتی کی بات ہے۔‘‘ اشتہار میں کانگریس پر الزام عائد کیا گیا ہے کہ اس نے سرین جیسے سیکولر لیڈر کو کنارہ کش کر کے واریر جیسے شخص کو گلے لگاتے ہوئے فرقہ وارانہ نظریہ کی تائید کی ہے۔
اس اشتہار کو ایل ڈی ایف کے ذریعہ اقلیتی ووٹرس کو اپنی طرف کھینچنے کی کوشش کی شکل میں دیکھا جا رہا ہے۔ حالانکہ ایل ڈی ایف کے رہنماؤں نے اس اشتہار کا دفاع کیا ہے۔ مقامی سیلف گورنمنٹ کے وزیر ایم بی راجیش نے کہا کہ ’’انتخاب کے دوران سبھی روزناموں کو اشتہارات دیے گئے تھے۔ میری سمجھ میں نہیں آ رہا کہ 2 اخبارات میں شائع اشتہارات کو مسئلہ کیوں بنانا چاہیے۔‘‘ ساتھ ہی سی پی آئی (ایم) لیڈر اے کے بالن نے بھی اس اشتہار کو درست قرار دیا اور دعویٰ کیا کہ کانگریس میں شامل ہونے کے بعد بھی واریر آر ایس ایس سے وابستہ رہے، جو کہ قابل مذمت ہے۔
اس متنازعہ اشتہار معاملہ پر کانگریس کی طرف سے سخت رد عمل ظاہر کیا گیا ہے۔ کانگریس نے سی پی آئی (ایم) پر فرقہ وارانہ کشیدگی کو ہوا دینے کی کوشش کا الزام عائد کیا اور متنازعہ اشتہار کا موازنہ وڈکّرا میں 2019 کے لوک سبھا انتخاب کے دوران ’کافر‘ اسکرین شاٹ والے تنازعہ سے کیا۔ اس درمیان ضلعی انتخابی افسروں نے اس پورے معاملے کا نوٹس لیا ہے اور تحقیقات کر رہے ہیں کہ کیا یہ اشتہار الیکشن کمیشن کے کسی اصول کی خلاف ورزی کرتا ہے۔ ساتھ ہی اس معاملے میں شامل اخبارات سے وضاحت بھی طلب کی گئی ہے اور پولنگ کے بعد میڈیا مانیٹرنگ کمیٹی کا اجلاس بلانے کا بھی منصوبہ بنایا گیا ہے۔
سی پی آئی (ایم) نے اس تنازعہ کو سرے سے خارج کر دیا ہے اور کہا کہ اشتہار تمام اصول و ضوابط کی پاسداری کرتا ہے۔ وزیر ایم بی راجیش کا کہنا ہے کہ ’’ہم نے ضروری اجازت حاصل کرنے کے بعد ہی اشتہار شائع کیا۔ ہم نے 4 اخبارات کو یہ اشتہار دیا تھا، پھر کانگریس صرف 2 اخبارات کو ہی کیوں ہدف بنا رہی ہے؟ وہ اخبارات پر مذہب کا لیبل کیوں لگا رہی ہے؟‘‘ انھوں نے کانگریس کو یہ چیلنج بھی کیا کہ اگر انھیں کوئی شکایت ہے تو وہ الیکشن کمیشن میں شکایت کریں۔ راجیش نے کانگریس رکن پارلیمنٹ شفیع پرمبل پر فرقہ پرستی کو فروغ دینے کا بھی الزام عائد کیا اور کہا کہ ’’شفیع قصداً اس مسئلہ کو فرقہ وارانہ بنا رہے ہیں۔ صرف فرقہ وارانہ سوچ رکھنے والا ہی اخبار پر مذہب کا لیبل لگا سکتا ہے۔‘‘
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔