[ad_1]
کراچی:
وفاقی ٹیکس محتسب ڈاکٹر آصف محمود جاہ نے کہا ہے کہ رواں سال 11 ہزار سے زائد ٹیکس سے متعلق شکایات موصول ہوئیں جس میں 94 فیصد کا فوری فیصلہ کیا۔ قانون کے مطابق وفاقی ٹیکس محتسب 60 دن میں فیصلہ کرنے کا مجاذ ہے تاہم ٹیکس کنند ہ کی سہولت کیلئے اوسط فیصلہ 37 دن میں کر رہے ہیں۔
ان خیالات کا اظہار وفاقی ٹیکس محتسب نے کورنگی ایسوسی ایشن آف ٹریڈ اینڈ انڈسٹری (کاٹی)میں خطاب کرتے ہوئے کیا۔ انہوں نے کہا کہ ایف ٹی او سے متعلق عوام اور تاجر برادری میں آگاہی کیلیے اقدامات کر رہے ہیں۔ وفاقی ٹیکس محتسب کا عہدہ سپریم کورٹ کے معزز جج کے مساوی ہے اور ایف ٹی او کے فیصلے کے خلاف اپیل صرف صدر مملکت سے ہی کی جاسکتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ صدر پاکستان کے پاس جو اپیلیں گئیں ان میں سے 98 فیصد پر وفاقی ٹیکس محتسب کے فیصلوں کی توثیق کی گئی۔ انہوں نے کہا کہ سال 2021 میں 17.8 ارب روپے کے ریفنڈ کی شکایت کا ازالہ کیا گیا۔
ڈاکٹر آصف محمود جاہ نے کہا کہ عہدہ سنبھالنے کے بعد ریجنل دفاتر کی تعداد میں اضافہ کیا جس سے عوام کی رسائی ایف ٹی او تک بڑھی۔ ٹیکس دہندگان کسی بھی قسم کی شکایت کیلیے بلا خوف فوری رابطہ کر سکتے ہیں، اس سلسلے میں ایف بی آر کے چیئرمین نے بھی فیصلہ جاری کیا جس کے مطابق کسی بھی شکایت کی صورت میں مذکورہ شکایت کنندہ پر کسی قسم کا کوئی نوٹس یا آڈٹ کا حکم نہیں دیا جاسکے گا۔
قبل ازیں کاٹی کے صدر جنید نقی نے کہا کہ موجودہ حالات میں ٹیکس دہندگان کی مشکلات میں بے پناہ اضافہ ہوا، ایف بی آر حکام کی جانب سے صنعتکار و تاجر برادری کو ہراساں کرنے کے واقعات میں دن بدن اضافہ ہوتا جا رہا ہے، حکام کی جانب سے غیر ضروری نوٹسز، اور آڈٹ کے نام پر پریشان کی جارہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ صنعتکاروں کی جانب سے بے شمار شکایات موصول ہوتی ہیں جس میں بلا جواز نوٹس بھیج کر پریشان کیا جاتا ہے۔ ٹیکس گوشوارے جمع کرانے میں بھی بہت مشکلات ہیں،ایف بی آر کا سسٹم سست روی کا شکار رہتا ہے جس کا خمیازہ فائلر کو ادا کرنا پڑتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ صنعتکاروں کے ریفنڈز کے مسائل بڑھتے جارہے ہیں، ایف بی آر حکام بلا وجہ ریفنڈ روک لیتے ہیں جس سے صنعتکاروں کی مشکلات اور سرمائے کی قلت بڑھتی جارہی ہے۔ پاکستان میں ٹیکس نیٹ وسیع کرنے کی بجائے موجود ٹیکس دہندگان پر اضافی بوجھ ڈالا جارہا ہے۔ ٹیکس نیٹ میں اضافہ کیلئے ایف بی آر کے اقدامات نا کافی ہیں، صرف 30 فیصد معیشت دستاویزی ہے جس کو بڑھانے کی ضرورت ہے۔
[ad_2]
Source link