[ad_1]
حالیہ دنوں اترپردیش میں ایک نئے قانون کے حوالے سے سوشل میڈیا اور الیکٹرونک میڈیا پر زبردست بحث چل رہی ہے، جس میں یوپی میں تیزی کے ساتھ بڑھتی ہوئی آبادی کو مستقبل کے لیے خطرہ بتاتے ہوئے آبادی کو کنٹرول کرنے کی منصوبہ بندی کی گئی ہے، اس کے مسودے کی ایک لمبی فہرست ہے ، جن میں سے چند باتیں قابل ذکر ہیں۔
قانون کے مطابق صوبے کے ہر شہری کو دو ہی بچے پیدا کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔ نیز اس قانون کی خلاف ورزی کی صورت میں دو سے زائد بچے پیدا کرنے والے کو سرکاری ملازمت اور دیگر حکومتی سہولیات سے محروم رکھا جائے گا اور انتخاب لڑنے کی بھی اجازت نہیں ہوگی ۔
ایسی بے شمار باتیں اس مسودے میں درج ہیں ۔
یوپی سرکار کا ایسا کارنامہ پہلی بار نہیں جب وہ اپنے بے تکے قانون اور لایعنی پولیسیز کی بنا پر سرخیوں میں ہے، بلکہ اس سے قبل بھی لو جہاد، جیسے کئی قانون پاس کرائے گئے اور ان سے خاص طور پر مسلمانوں کو نشانہ بنایا گیا،جن کی بےشمار مثاليں موجود ہیں۔
واضح رہےکہ یہ قانون صوبے کے ہر شخص کے لیے ہوگا خواہ وہ کسی مذہب سے تعلق رکھتا ہو۔ لیکن گودی میڈیائی نیوز اینکروں کی باتوں کو سن کر ایسا لگ رہا ہے کہ اس قانون کا نشانہ بھی صرف مسلمانوں ہی کو بنایا جائے گا اور اسی بنا پر مسلم طبقہ میں شدید بے چینی اور بے قراری پائی جا رہی ہے ۔
لیکن یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا مسلم ہی دو سے زائد بچہ پیدا کرتے ہیں؟ کیا اس قانون سے صرف مسلمانوں ہی کو ڈرنے کی ضرورت ہے ؟ کیا نیوز اینکروں کا اس قانون کو مسلم مخالف باور کرانے کی کوشش کرنا صحیح ہے؟
اور دوسری بات یہ کہ دو سے زائد بچے پیدا کرنے کی صورت میں سرکاری ملازمت نہ مل سکے گی، یہ بھی ایک طرح سے استہزاء پر مبنی ہے پورا ملک جانتا ہے مرکز میں ہو یا پھر صوبے میں موجودہ حکومت نے اب تک کتنے لوگوں کو سرکاری ملازمت دی ہے۔ اور اب جو لوگ سرکاری نوکری کر رہے ہیں اور ان کے دو سے زائد بچے ہیں تو کیا حکومت ان کو نوکری سے نکالے گی،
حقیقت تو یہ ہے کہ موجودہ صوبائی حکومت فلاح و بہبود کے حوالے سے اپنی تمام پالیسیوں میں مکمل طور پر صفر ثابت ہوئی ہے، شاید یہی وجہ ہے کہ اپنی ناکامیوں کو چھپانے کے لیے لو جہاد اور پاپولیشن کنٹرول جیسے قانون لائی، تا کہ پارٹی اس قانون کے ذریعے اپنے کارکنان میں اپنی عزت بحال کرنے کی کوشش میں کامیاب ہو سکے اور انہیں چند باتوں کو ہدف بنا کر 2022 کے انتخابی مہم میں زعفرانی افکار و نظریات کے حامل افراد سے ووٹ حاصل کر سکے۔
جہاں تک بات ہے اس قانون کے نفاذ کی تو اس سے مسلمانوں کو گھبرانے کی بالکل ضرورت نہیں ، کیونکہ 2018 کے شمار کے مطابق یوپی میں مسلمانوں کی آبادی3/ 19
ہے جبکہ ہندو اور دوسرے مذاہب کی تعداد زیادہ ہے لہٰذا ہم سے پہلے انہیں اپنے گھر میں جھانک کر دیکھنا ہوگا ۔
اللہ ہمارا حامی و ناصر ہو۔
از قلم✒۔
محمد احمد حسن امجدی ۔
ریسرچ اسکالر۔ البرکات اسلامک ریسرچ اینڈ ٹریننگ انسٹی ٹیوٹ علی گڑھ۔
[ad_2]
Source link