[ad_1]
راولپنڈی:
برطانوی اخبار نے دعویٰ کیا ہے کہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے قید بانی عمران خان کی خواہش کی باوجود فوج کا کسی قسم کی ڈیل کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔
برطانوی اخبار گارجین کی رپورٹ کے مطابق سینئرعکسری ذرائع نے بتایا کہ فوج کاعمران خان کے ساتھ کسی قسم کے مذاکرات یا ڈیل کا کوئی ارادہ نہیں ہے جبکہ عمران خان نے جیل سے ہی عسکری قیادت سےمذاکرات کی خواہش ظاہر کی تھی۔
گارجین نے بتایا کہ اڈیالہ جیل میں قید عمران خان سے صحافیوں کی ملاقات پر پابندی ہے لیکن گارجین نے اپنے سوالات ان کی قانونی ٹیم کے ذرائع بھیج دیے تھے۔
عمران خان نے سوالوں کے جواب میں کہا کہ گزشتہ برس اگست میں قید کے بعد سے فوج کے ساتھ براہ راست کوئی ملاقات نہیں ہوئی ہے تاہم انہوں نے کہا کہ ماضی میں ان کی حکومت گرانے اور جیل میں ڈالنے میں کردار جیسے الزامات عائد کرنے کے باوجود پاکستان کی طاقت ور عسکری اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ڈیل خارج ازمکان نہیں ہوگی۔
برطانوی اخبار کو انہوں نے بتایا کہ فوج کے ساتھ ڈیل کے حوالے سے کوئی بھی ملاقات اصولوں اور عوام کے مفاد کی بنیاد پر ہوگی اور یہ ملاقات ذاتی مفاد یا کمپرومائز کرنے کے لیے نہیں ہوگی جس سے پاکستان کی جمہوری اقدار کو ٹھیس پہنچے۔
انہوں نے کہا کہ اپنے اصولوں پر سمجھوتہ کرنے کے بجائے ساری زندگی جیل میں رہنے کو ترجیح دوں گا۔
فوجی عدالت میں ٹرائل سے متعلق سوال پر بانی پی ٹی آئی نے کہا کہ ایک سویلین کا فوجی عدالت میں ٹرائل کیسے ہوسکتا ہے اور وہ بھی ایک سابق وزیراعظم کا، یہ ایک مضحکہ خیز بات ہوگی۔
عمران خان نے کہا کہ ایک سویلین کی فوجی عدالت میں ٹرائل کی واحد وجہ صرف یہی ہوسکتی ہے کہ کوئی اور عدالت مجھے سزا نہیں دے گی، یہ فیصلہ خطرناک ہوگا۔
جیل میں سہولیات فراہم کرنے کے حکومت دعوؤں کو مسترد کرتےہوئے انہوں نے کہا کہ ایسے حالات میں رکھا گیا ہے جو خوف، تنہائی اورمیرے حوصلے کو توڑنے کےلیے ترتیب دیے گئے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ میرے ساتھ ملاقاتوں پر پابندی لگا دی گئی ہے، سیل میں بجلی نہیں اور 24 گھنٹوں تک ایکسرسائز تک رسائی نہیں دی گئی یا بنیادی آزادی کے بغیررکھا گیا۔
عمران خان نے بتایا کہ صحافیوں کی ملاقات پر پابندی یا ٹرائل کی آزادانہ طریقے سے کوریج پر پابندی سے شفافیت پر کئی سوالات اٹھتے ہیں۔
بانی پی ٹی آئی نے کہا کہ وہ انصاف کے لیے پرامید ہیں اور انہیں یقین ہے کہ وہ عوام کی مرضی سے ایک مرتبہ پھر وزیراعظم بنیں گے۔
[ad_2]
Source link