دنیا میں مختلف طرز کی حکومتیں پائی جاتی ہیں، لیکن ہندوستان کی موجودہ حکومت، جمہوری نظام کے تحت حکمرانی کرتی ہے، اس وقت بھارت آئینی، پارلیمانی، اشتراکی، غیر مذہبی جمہوریہ ہے، اس کی باگ ڈور براہ راست عوام کے ہاتھوں میں ہے۔کیوں کہ جمہوریت کہتے ہی ہیں ایسی طرز حکومت کو جس میں حاکمیت اعلیٰ اور اقتدار، جمہور کے نمائندوں کو حاصل ہو۔ان نمائندوں کا انتخاب عوام کرتے ہیں۔جو اپنی پسند کا حکمراں چنتے ہیں۔
جمہوری ملک میں شہریوں کومختلف قسم کے حقوق حاصل ہوتے ہیں،مثلاً:اظہار رائے کی آزادی،اپنے اپنے مذاہب وعبادات پر عمل کرنے کاحق،تعلیم کا حق،ووٹ ڈالنے کا حق،اپنے مذہب کے مطابق شادی بیاہ کرنے کا حق اور اس کے علاوہ بھی بہت سے حقوق جمہوری ملک کا آئین شہریوں کوعطاکرتا ہے۔یہی آئین، جمہوری طرز حکومت کو آمریت سے ممتاز کرتا ہے۔آئین ہی جمہوریت کی شان ہے، آئین ہند ملک کو آزاد،سیکولر اور جمہوری ملک بناتا ہے جہاں عوام کے تئیں انصاف، مساوات اور حریت کو یقینی بنایا جاتا ہے۔
۱۵؍اگست ۱۹۴۷ء میں جب ملک ہندوستان انگریزوں کے چنگل سے آزاد ہوا تو دستور ساز اسمبلی نے قانون سازی کے لیے ایک “ڈرافٹنگ کمیٹی” تشکیل دی، جس کے سربراہ ڈاکٹر بھیم راو امبیڈکر بنائے گئے۔اس کے ذریعے۲سال، ۱۱مہینے اور ۱۸ دن میں ۲۶؍نومبر ۱۹۴۹ء کو بن کر تیار ہوا اور اس کا نفاذ دو مہینے کے بعد ۲۶ جنوری ۱۹۵۰ء کو عمل میں آیا۔ آئین کے نفاذ کا دن چونکہ اہمیت کا حامل ہے اسی مناسبت سے ۲۶؍جنوری کو ملک بھر میں یوم جمہوریہ کے طور پر منایا جاتا ہے۔
جب ہم ملک کے حالات کا جائزہ لیتے ہیں تو آزادی کے وقت کا ہندوستان اور آج کے ہندوستان میں نمایاں فرق نظر آتا ہے۔ہمارا ملک انگریزوں سے تو آزاد ہوا لیکن ان کی ذہنیت رکھنے والوں کے ہاتھوں میں آ کر گِھر گیا، ہم آزادی کا تو جشن مناتے ہیں، جمہوریت کا تو دن مناتے ہیں لیکن نہ ہم مکمل طور پر آزاد ہیں نہ موجودہ جمہوری طرزِ حکومت سے مطمئن۔
آج، ہم آزادنہیں ہیں،کیوں کہ “لڑاؤ اور راج کرو”کے فارمولے پر آج بھی عمل ہو رہا ہے۔ ملک میں رہنے،تعلیم حاصل کرنے، مذہب پر عمل کرنے،ووٹ ڈالنے اور اظہار ِ رائے کی آزادی جیسے حقوق جو ہمیں آئین کے ذریعے حاصل ہیں، اسی کی بنا پر ہماراملک جمہوری ہے،اس کی بنیادی ساخت کو ہی کھوکھلا کیا جا رہا ہے،دیکھا جائے تو نہ پورے طور پراظہارِ رائے کی آزادی کا تصور ہے نہ ہی مذہبی آزادی کا، حکومت کی کارستانیوں کو عوام کے سامنے لانے والے صحافیوں کو جیلوں کی سلاخوں کے پیچھے ڈالا جا رہا ہے تو کسی کو گورستان تک پہنچایا جا رہا ہے، اور کہیں تواظہارِ رائے کی اتنی آزادی ہے کہ ایک خاص مذہب سے تعلق رکھنے والوں کو کاٹ ڈالنے تک کی باتیں برسرِ عام کی جارہی ہیں۔ایسی بدعنوانیوں کے خلاف مسلسل احتجاجات بھی ہو رہے ہیں لیکن حکومت گونگی بہری بنی ہوئی ہے۔یوم جمہوریہ کے موقع پریہ پوچھا جانا چاہیے کہ شہریوں کوآئین سے ملے ہوئے مذہبی اور سیاسی، سماجی حقوق کہاں گئے؟
آئین میں مذہبی آزادی کی دفعہ تو ہے لیکن کالج اور یونیورسٹی میں حجاب کی مخالفت عام ہوتی جا رہی ہے۔کرناٹک کے اُدُوپِّی میں ایک سرکاری کالج میں ۶؍ مسلم طالبات کو حجاب پہننے پر کلاس روم سے باہر کر دیا گیا ہے، اور انھیں طرح طرح سے ہراساں کیا جا رہا ہے، صوبے کے وزیر تعلیم نے بیان دیا ہے کہ “کالج میں حجاب پہننا ضابطہ شکنی ہے،”جبکہ ان کی سینئر طالبات نے حجاب پہنا، تب کوئی ضابطہ شکنی نہیں ہوئی، تو آج کیوں ہونے لگی؟ کیا یہی ہے آزادی کا مطلب؟
بُلّی بائی ایپ، سلی ڈیل اور کلب ہاؤس ایپس کے ذریعے مسلم خواتین کی بولی لگائی جا رہی ہے، ان کی عصمت سے کھلواڑ کیا جارہا ہے، ان کو بدنام کیا جا رہا ہے، لیکن ایسا کرنے والوں پر کوئی خاص کاروائی نہیں ہو رہی۔کہاں گیا آئین کا آرٹیکل نمبر ۲۱؍رازداری کا حق(رائٹ ٹو پرائیویسی)؟ جس کے تحت شہریوں کو شخصی آزادی اور رازداری کا حق حاصل ہوتاہے۔
آئین میں تعلیم حاصل کرنے کا حق تو موجود ہے لیکن ایک وبا کی آڑ میں تعلیمی ادارے نہیں کھولے جا رہے ہیں، جب کہ سارے دفاترکھلے ہیں،ریل، مال، مارکیٹ ساری چیزیں کھلی ہیں، تو تعلیمی ادارے کیوں بند ہیں؟پورے دو سال ہونے والے ہیں، لیکن یونیورسٹی ابھی تک نہیں کھولی گئی، آخر کیا وجہ ہے؟ ایسا لگ رہا ہے کہ ایسی سازش رچی جا رہی ہے جس میں نہ ظاہراً آئین کی خلاف ورزی ہو اور نہ عوام کے حقوق کی پامالی ہو اور کام بھی ہو جائے۔ذراغور توکریں شیطانی ذہنیت کیسے کیسے کام کر رہی ہے۔اب تو زعفرانیت زدہ لیڈران اور ان کے ہم نوالے آئین کی بھی پرواہ نہیں کرتے، ان کی منشا یہی ہے کہ دستور کو تبدیل کر دیا جائے، ملک کو ہندو راشٹر بنایا جائے، جس کا کھل کر پرچار کر رہے ہیں۔
مسلمانوں کے تئیں نفرت اس قدر بڑھ گئی ہے کہ برسرعام ہندو راشٹر بنانے کا اعلان کیا جا رہا ہے، بھگتو سے مسلمانوں کے بائیکاٹ کا حلف لیا جا رہا ہے، اس کی ویڈیو بناکر جاری کی جا رہی ہے، تاکہ نفرت کا کھیل کھلے عام کھیلا جائے اور مسلمانوں کے دلوں میں اتنی دہشت پیدا کر دی جائے کہ وہ خود یہ ملک چھوڑ کر بھاگ جائیں، اور ہم راج کریں۔
ملک کی امن و سکون بھری فضا میں زہر گھول دیا گیا ہے، خوب نفرتیں پھیلائی جا چکی ہیں،مزید جاری ہیں۔نفرت اور تعصب کی بنا پربس اور ٹرینوں کاسفرمشکل ہوتاجا رہا ہے۔اسلام دشمن عناصر حیوانیت اور درندگی کے درپے ہیں۔ایک نہیں، نہ جانے کتنے مسائل ہیں جن سے اقلیتی طبقہ پریشان ہے۔نہ کوئی سنوائی ہے نہ ہی دکھ درد کا مداوا۔اب نہ جانے جمہوریت کا انجام کہاں تک پہنچے، رب ہی سلامت رکھے، کیوں کہ حاکم اعلیٰ اسی کی ذات ہے۔اسی کی ذات سے امیدیں وابستہ ہیں۔وہی کارساز حقیقی ہے۔وہی لوگوں کے دلوں کو پھیرنے والا ہے۔ اسی سے بہتری کی التجا ہے کہ ملک کے حالات بہتر کر دے۔
یہی ہے آج کا ہندوستان، جس میں جمہوری اقدار بس نام کی چیز رہ گئی ہے، جس کی دہائیاں بھی ایوان تک نہیں پہنچ پاتیں۔ اب ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم خود کو تعلیمی اور معاشی اعتبار سے مضبوط کریں اور اس سلسلے میں ضرورت مندوں کی مدد کریں۔قوم و ملت کی فلاح و بہبود کے کام کریں، جب مختلف شعبہاے حیات میں ہم مضبوط ہوں گے، اور اپنے مالک حقیقی سے بھی رشتہ مضبوط کریں گے تو بہتری آئے گی، بس ہمیں کوشش کرنے کی ضرورت ہے۔
از: محمد عارف رضا نعمانی مصباحی
ایڈیٹر: پیام برکات، علی گڑھ
رابطہ نمبر 7860561136