[ad_1]
غزہ کے بے وسیلہ فلسطینیوں اورقابض وسفاک صہیونی اسرائیل کے درمیان مسلّح جنگی تصادم کو ایک سال کے اوپر عرصہ گزر گیا ہے ۔آغاز میں اندازے یہی تھے کہ ’’حماس‘‘ اور اسرائیل کے درمیان یہ لڑائی چند دنوں میں ماند پڑ جائے گی ۔ درمیان داری کرنے والی عالمی قوتیں بیچ بچاؤ کروا دیں گی ۔ یو این او بھی خونریزی کو بڑھنے نہیں دے گا ۔ عالمِ اسلام کی نمایندہ تنظیم OICبھی اپنا کردار ادا کرتے ہُوئے عالمی فیصلہ سازقوتوں کو مجبور کردے گی کہ غزہ اور اسرائیلی تصادم روکا جائے اور فریقین کو مذاکرات کی میز پر بٹھایا جائے۔
سال گزرنے کے باوجود ساری اُمیدیں خاک میں مل گئیں ۔ صہیونی اسرائیل کا دستِ ستم کوئی بھی نہیں روک سکا۔ عالمِ اسلام کے چھوٹے بڑے اور معاشی طور پر طاقتور و کمزور حکمران یہ خونی تماشہ دیکھنے کے سوا کچھ نہیں کر سکے ۔ جب کہ امریکا، کینیڈا اور برطانیہ سمیت کئی مغربی ممالک آج بھی پوری کمٹمنٹ کے ساتھ جارح اور خونی اسرائیل کی پُشت پناہی کر رہے ہیں ۔ اسرائیل کو مسلسل امدادی ڈالرز، پونڈز اور یوروز بھی مل رہے ہیں اور تباہ کن جدید اسلحہ کی ترسیل بھی جاری ہے ۔
غزہ میں اسرائیل 42 ہزار سے زائد فلسطینیوں کا قتلِ عام کرنے کے بعد اب اپنے ہمسایہ ملک، لبنان، پر حملہ آور ہے ۔ وہ لبنان میں بروئے کار مزاحمتی تحریک ’’حزب اللہ‘‘ کو مکمل طور پر کچلنا چاہتا ہے ۔ یہ مگر اُسی طرح ناکام ہوگا جس طرح اسرائیل’’ غزہ‘‘ میں حریت پسند ’’حماس‘‘ کو شکست دینے میں ناکام ہورہا ہے ۔ پچھلے تین ہفتوں کے دوران اسرائیل اب تک لبنان میں ’’حزب اللہ‘‘ کے چار ہزار افراد کا خون بہا چکا ہے ۔ لاکھوں لبنانی اسرائیلی مہلک بمباری سے پناہ حاصل کرنے کے لیے شام کی طرف ، بے سروسامانی میں ، بھاگ رہے ہیں ۔
شام تو پہلے ہی تباہ ہو چکا ہے ۔ وہ لاکھوں مہاجر لبنانیوں کی کیا دستگیری کرے گا؟ عالمِ عرب اور مشرقِ وسطیٰ کے میڈیا کا مطالعہ کیا جائے تو واقعی معنوں میں دل خون کے آنسو روتا ہے ۔ غزہ کے بعد اب لاکھوں مظلوم اور لُٹے پِٹے لبنانی مہاجرین کی داستانیں پڑھ اور دیکھ کر دل ڈوب ڈوب جاتا ہے ۔ اور اسرائیل ہے کہ اُس کی خوں آشام وحشت و خشونت رک ہی نہیں رہی ۔ وہ حماس کے دو اہم ترین لیڈروں ( اسماعیل ہنیہ اور یحییٰ السنوار) کو شہید کرنے کے بعد لبنان میں ’’حزب اللہ‘‘ کی دو مرکزی شخصیات( شیخ حسن نصراللہ اورہاشم صفی الدین) کو بھی یکے بعد دیگرے شہید کر چکا ہے۔
اِن سے پہلے ناجائز اسرائیلی ریاست نے ’’حماس‘‘ کے دو بانی لیڈروں ( شیخ احمد یاسین اور عبدالعزیز رنتیسی) کو بھی شہید کر دیا تھا ۔ کوئی بھی اب تک مگراتنی بڑی شخصیات کی شہادتوں کا اسرائیل سے بدلہ نہیں لے سکا ۔26اکتوبر2024 کی شب اسرائیل نے ایران کے چار بڑے شہروں پر جو حملے کیے ہیں ،اِن سے یہ خطّہ نئے سرے سے پھر دہکنے لگا ہے ۔
اسرائیلی حملوں کے کارن لبنان اور غزہ کے مہاجرین کی تعداد اور مصائب بے حد بڑھ چکے ہیں ۔ غزہ میں تو کفن بھی میسر نہیں ہیں۔ جرمن میڈیا (DW) نے لبنان کی ہزاروں حاملہ مہاجر خواتین بارے جو تازہ ترین رپورٹ شایع کی ہے، کیا عالمِ اسلام اور لبنان کے ہمسایوں کے دل پسیج نہیں رہے؟ خدا کا شکر ہے کہ پاکستان مسلسل غزہ کے مہاجرین کے لیے بھی ہر ممکنہ امداد بھیج رہا ہے اور اب پاکستان نے لبنانی مہاجرین کی پکار پر بھی لبیک کہا ہے ۔
حکومتِ پاکستان نے26 اکتوبر کو دو جہاز، جن میں 100 ٹن وزنی امدادی سامان لدا تھا، لبنان اور غزہ کے لیے بیروت اور اُردن بھجوا دیے ہیں۔ وزیر اعظم جناب شہباز شریف نے یہ بھی ہدایت کی ہے کہ ہوائی راستے کے علاوہ زمینی راستے سے بھی ٹرکوں کے ذریعے غزہ اور لبنان کے مستحقین تک امداد پہنچائی جائے ۔امدادی سامان کی تیز تر ترسیل کے لیے وزیراعظم نے فلسطین، لبنان، اُردن اور مصر میں تعینات پاکستانی سفراء سے روابط مزید بہتر بنانے کی ہدایت بھی کی۔ وزیراعظم نے پاکستانی عوام بالخصوص صاحبِ ثروت افراد سے اپیل کی ہے کہ وہ بڑھ چڑھ کر وزیراعظم ریلیف فنڈ برائے غزہ و لبنان میں عطیات جمع کروائیں۔اِس سلسلے میں پاکستان اور بیرونِ پاکستان مقیم پاکستانیوں کے لیے بینک اکاؤنٹ (IBAN:PK11SBPD000000111111429) بھی قائم کر دیا گیا ہے ۔
پاکستان کی جانب سے غزہ و لبنان میں اسرائیلی جارحیت سے متاثرہ بہن بھائیوں کے لیے سردی سے بچانے والے ٹینٹس، کپڑے، کمبل، ادویات، اشیائے خور و نوش بھجوائے جا رہے ہیں۔ غزہ اور لبنان کے مصائب گزیدگان کی سرکاری دستگیری کے علاوہ پاکستان کی بعض این جی اوز بھی دامے درمے غزہ اور لبنان کے متاثرین کے لیے امداد بھجوا رہے ہیں ۔ مثال کے طور پر ’’الخدمت فاؤنڈیشن‘‘ اور ’’المصطفیٰ ویلفیئر ٹرسٹ انٹر نیشنل۔‘‘ مجھے جماعت اسلامی اور ’’الخدمت فاؤنڈیشن‘‘ کے شمسی صاحب نے ایک وٹس ایپ میسج بھیجا ہے جس میں ’’الخدمت فاؤنڈیشن‘‘ کے سربراہ ، ڈاکٹر حفیظ الرحمن صاحب، ایک مختصر سی وڈیو میں بتا رہے ہیں کہ ہم17اکتوبر2024کو ایک اسپیشل چارٹرڈ بوئنگ747 طیارے میں غزہ اور لبنان کے ضرورتمندوں کے لیے کئی ٹن وزنی ریلیف کا سامان لے کر بیروت(لبنان) روانہ ہو رہے ہیں ۔ اُن کے عقب میں امدادی سامان سے لدا طیارہ بھی کھڑا نظر آ رہا ہے ۔ ’’الخدمت فاؤنڈیشن‘‘ والے دوسری بار بڑی امدادی کھیپ لے کر بیروت گئے ہیں ۔ اللہ ایسے لوگوں کو خدمت کی جزا دے ۔آمین ۔
ابھی راقم ’’الخدمت فاؤنڈیشن‘‘ کی اِس امداد کی جزئیات بارے پڑھ ہی رہا تھا کہ مجھے عالمی شہرت یافتہ این جی او ’’المصطفیٰ ویلفیئر ٹرسٹ‘‘ کے چیئرمین جناب عبدالرزاق ساجد کا ایک طویل وٹس ایپ میسج ملا ۔ پھر اُن سے بذریعہ موبائل فون بات بھی ہُوئی ۔ اُن کے مسیج اور زبانی تفصیلی گفتگو سے معلوم ہُوا کہ وہ آجکل اپنے ادارے ( جس کا ہیڈ کوارٹر لندن میں ہے) کے چنیدہ افراد کے ساتھ لبنانی دارالحکومت ، بیروت، کے آس پاس ڈیرے لگائے بیٹھے ہیں۔
اِس مقصد کے تحت کہ صہیونی ہلاکت خیز اسرائیلی بمباری سے لبنان کے مختلف علاقوں (خصوصاً اسرائیل سے متصل شہروں ، گاؤں اور قصبات) میں لاکھوں کی تعداد میں جو نئے مہاجرین نامساعد حالات کا سامنا کررہے ہیں ، اُن کی ممکنہ طور پر اعانت کی جائے ۔ عبدالرزاق ساجد صاحب نے مجھے اپنے براہِ راست مشاہدات کا جو احوال سنایا ہے، سُن کر تو یوں لگتا ہے کہ لبنانی مہاجرین کے لیے اربوں ڈالر کی فوری امداد کی ضرورت ہے ۔ یہ اربوں ڈالر مگر دے کون؟؛ چنانچہ ’’المصطفیٰ ویلفیئر ٹرسٹ‘‘ اپنے محدود ذرایع کی بنیاد پر لبنان کے ستم زدگان کی دستگیری کرنے کی سعی کررہا ہے۔ انھوں نے مجھے بتایا کہ پچھلے دو ہفتوں کے دوران ہمارا ادارہ کئی لاکھ پونڈز کی امداد تقسیم کر چکا ہے ۔ اِس امداد میں سردیوں سے محفوظ رہنے کے لیے فیملی خیمے اور گرم کپڑے، کمبل، حاملہ خواتین کے لیے فوری ضرورت کی ادویات اور مطلوبہ میڈیکل سامان، صاف پینے کا پانی ، پکا پکایا کھانے کے باکسز، پانی محفوظ رکھنے کے لیے کولرز ، دریاں ، بچوں کے کھلونے۔ وغیرہ ۔‘‘ جزاک اللہ ۔
’’المصطفیٰ ویلفیئر ٹرسٹ‘‘ کو اسرائیل کے ہاتھوں دُکھ اُٹھانے والے لبنانیوں کی امداد کرنے میں اس لیے بھی آسانی ہے کہ وہ پہلے ہی پچھلے کئی مہینوں سے مصر اور اُردن کے راستے ’’غزہ‘‘ کے ستم زدگان کی دن رات امداد کرنے میں جُٹے ہُوئے ہیں ۔ یوں انھیں اب بیروت کے آس پاس امداد تقسیم کرنے میں تجربہ کام آ رہا ہے ۔ یہ کام مگر اتنا سہل اور آسان نہیں ہے ۔ مجبوروں، ضرورتمندوں اور ہجرت کے غم اُٹھانے والوں کی دستگیری کے لیے چندہ اور ڈونیشن اکٹھا کرنا خاصا دشوار عمل ہے ۔اِس عمل سے گزرنے والوں ہی میں سے کوئی عبدالستار ایدھی بنتا ہے اور کوئی مدر ٹریسا۔
[ad_2]
Source link