[ad_1]
اسرائیل کے جنگی طیاروں نے ایران کی فضائی حدود میں20 سے زائد اہداف کو نشانہ بنایا جن میں میزائل ساز تنصیبات، زمین سے فضا میں مار کرنے والے میزائل اور دیگر فضائی سسٹمز شامل تھے۔ اسرائیل کے وزیر دفاع نے اس ہفتے کہا تھا کہ ’’دشمنوں کو اسرائیل کو نقصان پہنچانے کی بھاری قیمت چکانی پڑے گی۔‘‘
اس وقت اسرائیل مسلسل ایران کا صبر آزما رہا ہے اور امید کررہا ہے کہ بڑی جنگ چھیڑ کر وہ غزہ پر اپنی مجرمانہ کارروائیوں سے عالمی ممالک کی توجہ ہٹا دے۔ اس عمل کے دوران وہ ’’ عظیم اسرائیل‘‘ بنانے کی خواہش بھی کرے گا، جو اس کا ہمیشہ سے خواب رہا ہے۔ اسرائیل نے اس بار ایران پر حملہ کر کے یہ ظاہر کیا ہے کہ وہ متعدد محاذوں پر طویل جنگیں لڑنے کی صلاحیت رکھتا ہے، ان میں غزہ، مغربی کنارہ، لبنان، ایران اور یمن شامل ہیں۔
کئی دہائیوں سے، اسرائیل کی بنیادی حکمت عملی علاقائی جنگ کے امکانات پر مبنی ہے، جوکبھی مصر، اردن اور شام پر مرکوز تھی۔ آج، اس حکمت عملی کا ہدف ایران ہے، جسے اسرائیل اپنے وجود کے لیے بنیادی خطرے کے طور پر دیکھتا ہے۔ اس کی وجہ ایران کی جوہری صلاحیت اور میزائل ہیں جو اسرائیل کے بڑے شہروں تک پہنچ سکتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ایران، بجائے اس کے حمایت یافتہ گروپوں کے، خود اسرائیل کا اگلا ہدف بن جاتا ہے۔
مشرق وسطیٰ میں پیش آنے والے حالیہ واقعات کے تناظر میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ بنیامن نیتن یاہو کی حکومت شاید خطے میں ایک بڑی جنگ کو بھڑکانے میں کامیاب ہوجائے ۔ افسوس ناک بات یہ ہے کہ امریکا اور دیگر مغربی ممالک کی حکومتیں اسرائیل کی حمایت جاری رکھے ہوئے ہیں جب کہ وہ انسانیت کے خلاف اس کے جرائم کی مذمت کرنے سے بھی انکاری ہیں حالانکہ عالمی عدالت انصاف اور انٹرنیشنل کریمنل کورٹ دونوں نے غزہ میں اسرائیل کے جنگی جرائم کو تسلیم کیا ہے۔
اسرائیل نے جنگ بندی کے اقوامِ متحدہ کے مطالبے کو بھی نظرانداز کردیا۔ یہ حیران کُن ہے کہ وہ مغربی ممالک جو فخریہ انداز میں عالمی انسانی حقوق کے علمبردار ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں اور دنیا کے دیگر ممالک کو اس کا درس دیتے ہیں، وہ بھی غزہ کی نسل کشی پر چپ سادھے ہوئے ہیں۔
امریکا مشرقِ وسطیٰ میں اپنا اثر و رسوخ کھونے کے حوالے سے تشویش میں مبتلا ہے جو اس نے کئی سالوں میں اسرائیل اور دیگر عرب ممالک کے ذریعے حاصل کیا ہے۔ علاقائی سطح پر ایران جب کہ عالمی سطح پر روس اور چین امریکا کے اثر و رسوخ کو سخت مقابلہ دے رہے ہیں۔ اسرائیل اب بھرپور کوشش کررہا ہے کہ وہ ایران کو اپنے ساتھ جنگ میں الجھا دے جس کا اصل مقصد ایران کو قابو میں کرنا ہوگا جو کہ مشرقِ وسطیٰ میں امریکی اور اسرائیلی تسلط کو قبول کرنے سے انکاری ہے۔
تاہم ایران کو شکست دینا اتنا آسان نہیں کیونکہ اپنی حالیہ انٹیلی جنس ناکامیوں کے باوجود وہ عراق سے شام، لبنان تک، علاقے میں اپنا اثر و رسوخ قائم کرنے میں کامیاب ہوا ہے۔ یمن کے معاملے پر تنازعات کے باوجود ایران، سعودی عرب کے ساتھ اچھے سفارتی تعلقات کا خواہاں ہے۔ یہ سب اسرائیل کے لیے اچھی خبر نہیں۔
عالمی حکمرانی میں امریکا کی منافقت اور حرص اہم عناصر ہیں جس میں برطانیہ، کینیڈا، آسٹریلیا بھی اس کے اتحادی بنے جب کہ اہم یورپی ممالک اور گلوبل ساؤتھ کی ریاستیں بھی اپنے مفادات کی خاطر امریکا کا ساتھ دیتی ہیں۔ امریکا کی سب سے پسندیدہ لے پالک اولاد اسرائیل کو کبھی کبھی ہلکا سا ڈانٹ دیا جاتا ہے اور نام نہاد تنبیہات بھی کردی جاتی ہیں۔
لیکن امریکا زیادہ تر اسرائیل کو جدید مہلک ہتھیار فراہم کرتا ہے اور اسے کھلی چھوٹ دے دیتا ہے کہ وہ انھیں جہاں چاہے استعمال کرے جب کہ اسرائیل ان ہتھیاروں کا استعمال غیر معمولی طور پر کچھ زیادہ ہی کرتا ہے جس پر اسے امریکا کی معافی بھی مل جاتی ہے۔ اپنے تقریباً تمام پیش روؤں کے برعکس بنیامن نیتن یاہو فوجی پس منظر نہیں رکھتے۔ ان کی دہشت گردانہ صلاحیتیں ان کی توسیع شدہ مدت حکومت میں بڑے پیمانے پر سامنے آئی ہیں۔
حماس اور حزب اللہ کے رہنماؤں کی ہلاکتوں کے بدلے میں ایران کی طرف سے اسرائیل پر 180 سے زیادہ بیلسٹک میزائلیں داغنا یہ ظاہر کرتا ہے کہ اس تنازع کے داؤ کتنے بڑے ہو چکے ہیں۔ اسرائیل نے لبنان، شام اور یمن میں حزب اللہ اور ایران کی حمایت یافتہ قوتوں کو نشانہ بناتے ہوئے فضائی حملے کیے ہیں، جس سے تنازع مزید شدت اختیار کرگیا ہے۔
اسرائیل کے جدید میزائل دفاعی نظام کے زیادہ تر میزائلوں کو روک دینے کے باوجود اس جنگ کی آگ کے مزید بھڑکنے سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ دونوں فریق، خاص طور پر اسرائیل، اب محدود چھپی ہوئی جنگ کے ’’ ماڈل‘‘ سے مطمئن نہیں ۔ اسرائیل کے گولان بریگیڈ بیس پر حزب اللہ کے کامیاب ڈرون حملے نے اسرائیل کی فضائی دفاع کی کمزوری کو اجاگر کر دیا ہے اور اس سے تناؤ میں مزید اضافہ ہوا ہے۔
عالمی سطح پر مروجہ ورلڈ آرڈر ٹوٹ چکا ہے جب کہ نیا عالمی توازن قائم ہونا باقی ہے۔ امریکا، تیزی سے عالمی منظرنامے میں عالمی قوت کے طور پر ابھرنے والے چین اور دوبارہ عالمی طاقت بننے کے خواہاں روس سے طاقت کے حصول میں کوشاں ہے۔ امریکا جسے عسکری صلاحیتوں کے اعتبار سے واضح برتری حاصل ہے، کوشش کرے گا کہ چین کو ایک تنازع کا حصہ بنائے تاکہ چین نے جو معاشی اور عسکری استحکام حاصل کیا ہے، وہ اسے گنوا دے۔ ماسکو کو یوکرین میں الجھا دینے کے بعد واشنگٹن دو عالمی تنازعات جنوبی بحیرہ چین اور تائیوان یا مشرقِ وسطیٰ میں سے ایک میں چین کو شامل کرنا چاہتا ہے۔ امریکا کی مسلسل اشتعال انگیزیوں کے باوجود چین نے دانشمندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اب تک تائیوان اور جنوبی بحیرہ چین کے تنازع سے گریز کیا ہے۔
چین مشرقِ وسطیٰ کی جنگ میں بھی ملوث ہونے سے اجتناب کر رہا ہے جب کہ اس کے بجائے چین نے فلسطینی دھڑوں کے درمیان اتحاد اور اس سے قبل ایران، سعودی سفارتی مفاہمت میں ثالثی کا کردار ادا کر کے مشرق وسطیٰ میں اپنا اثر و رسوخ بڑھانے پر توجہ مرکوز کی ہے۔
اسرائیل کو عرب پڑوسیوں سے براہِ راست کوئی خطرے نہیں۔ لبنان خود افراتفری میں مبتلا ہے۔ مصر فوجی لحاظ سے مضبوط سہی لیکن اب وہ اپنی داخلی سیاسی کشمکش اور معاشی بحرانوں میں پھنسا ہوا ہے۔ اُردن کے پاس محدود فوجی استعداد کے علاوہ اپنے اندرونی اقتصادی اور سیاسی چیلنجز کافی گہرے ہیں۔ شام کی اسد حکومت کو دس برسوں پر محیط خانہ جنگی اور عالمی قوتوں کی مداخلت نے بے دست و پا کردیا ہے۔ غیر مستحکم عراق میں بھی اتنی سکت باقی نہیں بچی کہ وہ کوئی بامعنی مزاحمت کرسکے۔ خلیجی ریاستیں اسرائیل کے لیے فوجی خطرہ نہیں رہیں۔ ایران بھی اسرائیل کو دھمکیاں دینے کے علاوہ فلسطینی جنگجوؤں کو رقم اور محدود ہتھیاروں کی سپلائی کے سوا کچھ نہیں کر سکتا۔
ایران کے ساتھ مستقبل کی کسی بھی جنگ میں اسرائیل اور مغرب دونوں شامل ہوں گے۔ اسرائیل اب پہلے سے کہیں زیادہ اور بڑے پیمانے پر تصادم کے لیے تیار ہے۔ اس کے بحری بیڑے ایران کے ساتھ ایک بڑی جنگ کے لیے الرٹ ہیں، جو خطے کی سب سے بڑی فوجی تیاریوں میں سے ہے۔ یہ تہران کے لیے ایک واضح اشارہ ہے کہ ایران اور اس کی حکومت اس کی قیمت ادا کرے گی۔ روس کے بیانات، روسی حکام کے دورے اور ایران پر کسی بھی فضائی حملے کا مقابلہ کرنے کے لیے فوجی امداد کی تیزی سے فراہمی کے باوجود، اسرائیل کی جانب سے یہ اضافہ 1973 کی جنگ کے بعد سے خطے میں کسی بھی سابقہ تنازعے کے برعکس ہے۔
یہ ایران کو اسرائیل کا مقابلہ کرنے کی فضولیت پر نظرثانی کرنے پر مجبور کرسکتا ہے، یا اسے اپنی صلاحیتوں کو بڑھانے پر مجبور کرے گا؟ قاہرہ معاہدہ غزہ میں لڑائی کے خاتمے کے راستے پر ہے، لیکن اس سے ایران اور حزب اللہ کے ساتھ جنگ کی تیاری ختم نہیں ہو گی۔ اس جنگ میں ایران حماس کو بچانے میں ناکام رہا اور اس نے حزب اللہ کو لڑائی سے باہر رکھ کر محفوظ رکھا۔ اردن میں محاذ کھولنے کی کوشش ناکام ہو گئی اور شام نے ایرانی حمایت یافتہ مسلح گروپوں کو فوجی کارروائی کے لیے اپنی سرزمین استعمال کرنے کی اجازت دینے سے گریز کیا۔ صرف یمن میں حوثی فعال تھے لیکن حدیدہ بندرگاہ میں اس کی اپنی اہم تنصیبات تباہ ہونے کے بعد پیچھے ہٹ گئے۔
دہائیوں سے اسرائیل اور ایران نے چھپے ہوئے تنازع کے ذریعے ایک دوسرے کو سبق سکھانے کی حکمت عملی اپنائی ہوئی ہے۔ تاہم، غزہ، مغربی کنارے اور لبنان میں اسرائیل کی جارحیت اور مسلسل حملوں نے اس نازک توازن کو بگاڑ دیا ہے۔ مشرق وسطیٰ کے لیے اس کے مضمرات تباہ کن ثابت ہو سکتے ہیں۔ اسرائیل اور ایران دونوں اب ایک دوسرے کے خلاف تنازع کو اگلے مرحلے میں لے جانے کے لیے تیار ہیں۔ خطے میں مسلسل فوجی تشکیل، اسرائیل کے فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے سے انکار کے پیش نظر، اسرائیل ایران جنگ کا امکان بڑھ گیا ہے۔
[ad_2]
Source link