اسلام آباد: اداروں میں جاری جوڈیشل سول جنگ کے خاتمے کیلیے سپریم کورٹ کا فل کورٹ اجلاس ناگریز دکھائی دے رہا ہے۔
قاضی فائز عیسٰی کا بطور چیف جسٹس کیریئر تنازعات سے بھرپور رہا ہے، ان کے تعلقات سابق چیف جسٹس ثاقب نثار، آصف سیعد کھوسہ اور عمر عطا بندیال کے ساتھ خوشگوار نہیں تھے۔ پچھلے سال ستبمر میں ان کے چیف جسٹس بننے کے بعد توقع کی جا رہی تھی کہ وہ پچھلے چیف جسٹس صاحبان کے برعکس سپریم کورٹ کو بطور ادارہ متحد کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے اور ان کا کوئی مخصوص ایجنڈا نہیں ہوگا۔
تاہم چیف جسٹس عیسیٰ اس تاثر کو ختم کرنے میں مکمل طور پر ناکام رہے کہ وہ پی ٹی آئی کے خلاف جارحانہ رویہ رکھتے ہیں، ان کے کچھ ہم خیال جج ان کے 13 جنوری کے حکم پر ناراض ہوئے جس میں پی ٹی آئی کے انٹرا پارٹی الیکشن کو غیر قانونی قرار دیا گیا ان کا خیال تھا کہ سپریم کورٹ کو کسی ایک سیاسی جماعت کے خلاف طاقت ور حلقوں کو کندھا نہیں دینا چاہیے۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس اطہر من اللہ کے درمیان تعلقات اسلام آباد ہائی کورٹ کے چھ ججوں کے عدالتی کاموں میں مداخلت کے حوالے سے خط لکھنے کے بعد متاثر ہوئے۔ مخصوص نشستوں پر 12 جولائی کے فیصلے کے بعد جسٹس فائز عیسیٰ اور جسٹس منصور علی شاہ میں تعلقات کشیدہ ہوئے۔
اس وقت چیف جسٹس بنچ میں اقلیتی رکن بن کررہ گئے،انہوں نے جسٹس منصورشاہ سے متعلق کچھ اقدامات کیے جس سے ان کے تعلقات مزید خراب ہوئے۔ سپریم کورٹ میں شفافیت کو یقینی بنانے پر چیف جسٹس فائر عیسیٰ کو سراہا جا رہا ہے۔ انھوں نے اپنے صوابدیدی اختیارات کمیٹی کے سامنے سرنڈر کر دئیے۔
چیف جسٹس عیسیٰ نے ہمیشہ اپنے سابقہ دور کی نسبت ہم خیال ججوں پر مشتمل بڑے اور خصوصی بنچوں کی تشکیل پر اعتراض کیا۔ حالانکہ پنجاب الیکشن ٹربیونلز سے متعلق معاملات کی سماعت کرنے والے بڑے بنچوں کی تشکیل پر سنگین سوالات ہیں۔
سپریم کورٹ کے سینئر ججوں کے درمیان متنازع آرڈیننس پر بات کرنے کے بجائے، چیف جسٹس نے کمیٹی کی تشکیل نو کی جس میں انہوں نے تیسرے سینئر ترین جج منیب اختر کی جگہ اپنے ہم خیال جج جسٹس امین الدین خان کو رکن بنایا، جو سپریم کورٹ میں ججوں کی سنیارٹی میں پانچویں نمبر پر ہیں۔
ایک وکیل نے افسوس کا اظہار کیا کہ اب چیف جسٹس عیسیٰ پہلے کی ہر بات کے منافی ہیں۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل طارق محمود کھوکھر نے کہا کہ سپریم کورٹ ایک بار پھرادارہ جاتی تنازعہ کا میدان بن گئی ہے۔ بیرسٹر اسد رحیم خان نے کہا کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے نتائج جلد ہی سامنے آ رہے ہیں،پہلا مرحلہ آئین کو مسمار کرنا اور ججز کے دائرہ اختیار پر تجاوز کرنا تھا۔
دوسرا مرحلہ خود عدالت سربراہی کرنا تھا۔ بیرسٹر اسد رحیم خان نے بتایا کہ وکلاء اس بات پر متفق ہیں کہ اس بحران کا حل فل کورٹ میٹنگ میں ہے۔ ڈاکٹر یاسر قریشی جنہوں نے حال ہی میں عدالتی سیاست کی تاریخ پر ایک کتاب لکھی جس میں انہوں نے تحریر کیا ہے کہ پاکستان میں سپریم کورٹ کے ججوں کے مسابقتی نوٹیفکیشنز، سوالات اور خطوط کی اشاعت ہمیشہ اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ سینئر ججوں میں سب کچھ ٹھیک نہیں ہے۔
یاسر قریشی کا کہنا ہے کہ شاید جسٹس فائز عیسیٰ کے دور میں عدالت میں سب سے اہم کردار ان کی بینچ کے انتخاب میں من مانی اور جانبداری کو رو کناتھا،اگر وہ پریکٹس ، پروسیجر ایکٹ پر صدارتی آرڈیننس کا نفاذ یقینی بنا لیتے ہیں تاکہ عدالتیں موجودہ حکومتی اتحاد کے حق میں فیصلے کریں تو یہ سسٹم کی تباہی ہوگا۔