آج کی دنیا جدیدیت پر مبنی حکمرانی کے نظام پر توجہ دینے کی بات کرتی ہے ۔جو بھی ریاستی یا حکومتی نظام مرکزیت پر مبنی نظام یعنی اختیارات کی مرکزیت کو بنیاد بنا کر حکمرانی کے نظام کو چلانے کی کوشش کرتا ہے تو اسے کمزور نظام کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔کیونکہ کسی بھی سیاسی ، سماجی ، معاشی و انتظامی نظام سمیت گورننس کی بہتری کے معاملات کا براہ راست تعلق عدم مرکزیت یعنی سیاسی ، انتظامی اور مالی اختیارات کی تقسیم کو بنیاد بنا کر ہی قائم کیا جاسکتا ہے۔
جمہوریت کی بنیاد ہمارے جیسے معاشروں میں تین نظام حکومت یعنی وفاقی، صوبائی اور خود مختار مقامی حکومتوں کے نظام پر قائم ہے۔ اسی بنیاد پر 1973کے دستور کی شقیں 140-A میں لفظ بلدیاتی نظام کے مقابلے میں مقامی حکومت استعمال کیا گیا ہے تاکہ اسے ایک حکومت کے طور پر تسلیم کیاجائے۔1973کے آئین کی شق 140-A تمام صوبائی حکومتوں کو پابند کرتی ہے کہ وہ اپنے اپنے صوبوں میں مقامی حکومت کے نظام کی مدد سے نچلی سطح پرسیاسی ، انتظامی اور مالی اختیارات کی تقسیم کو یقینی بنانے ، مقامی انتخابات کے تسلسل کو قائم کرنے اور اختیارات منتخب عوامی نمایندوں کو دینے کے پابند ہیں ۔جب کہ اسی آئین کی شق 32اس بات کو یقینی بناتی ہے کہ مقامی نظام حکومت مقامی سطح پر محروم طبقات جن میںعورتیں ،اقلیتیں ، معذور افراد، خواجہ سرا، مزدور، کسان اورنوجوانوں شامل ہیں ان کی مقامی ترقی کو بنیاد بنا کر آگے بڑھیں گی۔
پاکستان کے نظام کی شفافیت اور عوامی اعتماد سے محرومی پر مبنی نظا م کی بنیادی کمزوری ’’ حکمرانی کے نظام میں موجودفرسودہ و روائتی خیالات کا غلبہ ‘‘ ہے ۔اس خرابی میں ایک بنیادی وجہ ’’ خود مختار مقامی حکومتوں ‘‘ کے نظام کی محرومی بھی ہے ۔اول صوبائی سطح پر صوبائی حکومتوں کی ترجیحاتی بنیاد مقامی حکومت کے برعکس ہے ۔دوئم اگر کسی دباو یا عدالتی فیصلوں کی بنیاد پر مقامی حکومتیں بنابھی دی جائیں تو ان کو غیرفعال رکھنا یا ان کو اختیارات سے محروم رکھنا ہماری اجتماعی پالیسی کا حصہ ہے۔
یہ ہی وجہ ہے کہ پاکستان میں حکمرانی کے نظام سے جڑے معاملات پر ریاست یا حکومت اور عوام میں ایک بڑی خلیج اور بداعتمادی کا ماحول ہے۔عمومی طور پر جمہوریت میں مقامی حکومتوں کے نظام کی حیثیت ایک کنجی کا درجہ رکھتی ہے اور اس نظام کے بغیر مضبوط،مربوط اور شفاف جمہوریت کا تصور کوئی حیثیت نہیں رکھتا ۔ خود مختار مقامی حکومت کا تصور صرف سیاسی نظام ، سیاست یا جمہوریت کو ہی مضبوط نہیں بناتا بلکہ اس سے سیاسی جماعتوں کی اپنی داخلی ساکھ اور جماعتوں کا اپنا کردار مضبوط ہوتا ہے جو مقامی قیادت کو مقامی فیصلہ سازی میں شریک کرکے نظام میں ان کی اپنی ملکیت کے تصور کو اجاگرکرتا ہے ۔
دنیا کی جدید حکمرانی کے نظام نے اپنی حکمرانی کے نظام کو منصفانہ اور شفاف بنانے یا نظام پر لوگوں کے اعتماد کو بحال رکھنے کے لیے اپنی ریاستی سطح پر خود مختار مقامی حکومت کے نظام کو اپنی ترجیح کا حصہ بنا کر ان سے جڑے مسائل کا علاج تلاش کرلیا ہے ۔پاکستان میں اس نظام کی خرابی کی بہت سی وجوہات ہیں جن میں ریاستی و حکومتی سطح پر مقامی حکومت کو تیسری حکومت کے طور پر قبول نہ کرنا ،سیاسی جماعتوں کی عدم ترجیحات کاہونا ، انتظامی سطح پر بیوروکریسی کا مثبت رویہ نہ ہونا ، وسائل کی غیرمنصفانہ تقسیم اور صوبائی فنانس کمیشن میںمقامی مالی اختیارات کی تقسیم کے نظا م میں خرابیاں۔
آئین میں موجود قانونی سقم ،انتخابات کے تسلسل کا نہ ہونا ،صوبائی حکومتوں کی اپنی مرضی ،منشا اور سیاسی تقسیم سے جڑے مسائل،قومی اور صوبائی اسمبلی اور ان کے منتخب ارکان کے دوہرے معیارات،منتخب نمایندوں کے مقابلے میں بیوروکریسی یا غیر سیاسی عناصر کی بالادستی ،مقامی حکومتوں کے مقابلے میں متبادل نظام کو قائم کرنے کی پالیسی،مقامی حکومت میںشفاف نگرانی، جوابدہی اور احتساب کے نظام کا نہ ہونا ،محروم طبقات کو نظراندازکرکے مقامی طاقت ور افراد کا سیاسی قبضہ، عدالتوں کے معاملات میں نظریہ ضرورت کی پالیسی و ریاستی سطح پر ’’ خود مختار مقامی حکومتوں ‘‘ کے نظام کا جامع فریم ورک یا گائیڈ لائن کا نہ ہونا یا وفاق کامقامی حکومتوں کے نظام سے لاتعلقی کی سوچ و فکر نے اس نظام کو مختلف حوالوں سے کمزور کیا ہے ۔
18 ویں ترمیم کے بعد ایک عمومی سوچ یہ ہی تھی کہ وفاق کی طرف سے صوبوں کو ملنے والے اختیارات کے بعد اگلی منزل صوبوں سے اضلاع ، تحصیل ، یونین کونسل یا ولیج کونسل میں اختیارات کی تقسیم ہوگی ۔کیونکہ صوبائی خود مختاری کا عمل کسی بھی صورت میں مقامی حکومت یا مقامی خود مختاری کے بغیر ممکن نہیں ۔لیکن صوبوں نے جس انداز میں صوبائی سطح پر اپنی مرکزیت قائم کرلی ہے اور اضلاع یا تحصیل یا یونین کونسل کی سطح پر اختیارات نہ دینے کی پالیسی نے صوبائی حکومت کے جمہوری مقدمہ کو کمزور کیا ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ صوبائی حکومتیں مقامی حکومت کو نظرانداز کرکے ایک متبادل پالیسی کمپنیاں یا اتھارٹیوں کی بنیاد پر کام کررہی ہیں جو مقامی حکومتوں کے نظام کو کمزور کرنے یا ان کے مقابلے میں بیوروکریسی پر مبنی نظام کو فوقیت دینا ہے ۔صوبائی خود مختاری مقامی حکومتوں کے نظام میں اس حد تک آگے بڑھ گئی ہے کہ کوئی بھی ریاستی یا وفاقی ادارہ صوبائی حکومتوں کو نہ تو جوابدہ بناتا ہے اور نہ ہی صوبائی حکومتیں وفاقی حکومت کو جوابدہ ہیں ۔یہ عمل صوبائی حکومتوں کو مقامی حکومت کے نظام میںمن مانی کرنے ،آئینی حدود سے باہر رہنے اور حکمرانی کے جدید تصورات کی نفی کرتا ہے۔
مقامی حکومتوں کے بارے میں اس وقت قومی سطح پر ایک بڑے جمہوری فریم ورک درکار ہے او رجو خامیاں اس نظام میںقانونی یا آئینی سطح پر موجود ہیں اس سقم کو دور کرنے کے لیے ہمیں ایک اتفاق رائے پر مبنی وفاقی سطح پر تمام سیاسی جماعتوں کی جانب سے متفقہ آئینی پیکیج لانا ہوگا تاکہ ہم خود مختار مقامی حکومت کے نظام کی سمت میں درست راستہ اختیارکرسکیں ۔
اسی طرح جب تک ایم این اے اور ایم پی اے یا وفاقی اور صوبائی وزرا یا حکومتوں کے ترقیاتی بجٹ کے معاملات کو براہ راست مقامی حکومتوں کے نظام سے نہیں جوڑا جائے گا یہ نظام درستگی کی طرف نہیں بڑھ سکے گا۔وفاقی اور صوبائی ارکان کی ترقیاتی بجٹ میں موجودگی اور دلچسپی اس نظام کی نفی کرتی ہے ۔یہ ہی وجہ ہے کہ ہماری مجموعی سطح پر پارلیمانی سیاست کا بگاڑ او رپارلیمانی سیاست کی اہلیت، معیارات سمیت وفاقی ، صوبائی او ر مقامی حکومت یا اداروں میں باہمی چپلقش یا ٹکراو یا ایک دوسرے کو قبول نہ کرنے کی پالیسی غالب ہے۔
حکمرانی کے نظام میں بگاڑ اور موجودہ خرابیوں کا ایک بڑا اثر مقامی ترقی اور مقامی لوگوں میںمختلف نوعیت کی محرومی ، غربت، پس ماندگی کا عمل غالب ہے اور لوگ موجودہ نظام یا حکمرانی کے نظام سے نالاں ہیں۔ جنوبی پنجاب کی سطح پر سماجی ترقی اور مقامی حکومتوں کے نظا م کی فعالیت پر کام کرنے والی ایک معروف سماجی اور ترقیاتی امور پر گہری نظر رکھنے والی شخصیت ڈاکڑ عبدالصبورکئی دہائیوں سے مقامی افراد اور تنظیمو ں کی مدد سے حکمرانی کے نظام کی درستگی پر کام کررہے ہیں۔
ان کے بقول اگر جنوبی پنجاب کا ہی مقدمہ لے لیں تو یہاں عوامی مشکلات اور محرومی کی سیاست یا دیگر شکلوں میں مقامی حکومتوں کے نظام کی عدم موجودگی سب سے بڑا المیہ ہے ۔ان کے بقول مقامی سطح پر بالخصوص یونین یا گاوں کی سطح پر مقامی ترقی کے معاملات میں بنیادی نوعیت کی خرابیاں ہیں اور مقامی لوگوں ی اہمیت ، مسائل کو حکومتی سطح پر نظرانداز کرنے کی پالیسی نے لوگوں کو شفاف حکمرانی کے نظام سے دور رکھا ہوا ہے۔
ان کے بقول اصل مسئلہ مقامی ترجیحات یا مقامی مسائل کو صوبائی سطح پر کی جانے والی منصوبہ بندی میں عکاسی کا نہ ہونا ہے ۔اسی بنیاد پرالگ صوبہ کی بات باتیں ہوتی ہیں اور اس کی وجہ مقامی حکومتی نظام کی عدم موجودگی ہے اور اگر یہ نظام موجود ہو تو نئے صوبہ کی بات بھی کم ہوسکتی ہے۔ اسی طرح جنوبی پنجاب کا الگ سیکریٹریٹ بھی صوبائی سیاست کا شکار ہے او رمعاملات کو حل کرنے کے بجائے اسے مسلسل بگاڑا جارہا ہے ۔
بنیادی سوال عوامی مفادات، عوامی حمایت اور عوامی مسائل کو بنیاد بنا کر ایک مضبوط سیاسی ،جمہوری ، آئینی و قانونی نظام کی تشکیل کا ہے جو کسی بھی طور پر خود مختار مقامی حکومتوں کے نظام کی موجودگی اور فعالیت کے بغیر ممکن نہیں ۔سیاسی جماعتوں سمیت خود ریاست کے نظام کو نئے طور پر اپنی ترجیحات کا تعین کرنا چاہیے ۔خود مختارمقامی حکومت اور عدم مرکزیت کی پالیسی ہماری قومی ریاستی و حکومتی سمیت سیاسی جماعتوں کی سطح پر پہلی ترجیح کا حصہ ہونا چاہیے۔ معاشرے کے بااثر افراد یا جو رائے عامہ بنانے والے افراد یا ادار ے بشمول میڈیا ، دانشور، سول سوسائٹی کو ایک بڑے قومی مکالمہ کی طرف بڑھنا ہوگا۔ یہ عمل مقامی حکومت اور خود مختاری پر مبنی نظام کی اہم کڑی ہے اور اسے فوقیت دینا ہوگی۔