اسلام کی صداقت و سچائی کے دلائل پوری کائنات میں بکھرے ہوئے ہیں… نظامِ قدرت، اجرام فلکی اور سیاروں کی دنیا، جمادات و حیوانات اور نباتات کی دنیا، شجر و حجر اور بحر و بَر کی دنیا، سائنس و فلسفہ کے مشاہدات…تجربات اور نتائج، عالمِ مشاہدہ و عالم ارواح کے حقائق وغیرہ وغیرہ… یوں ہی موسموں کا تبدیل ہونا، فصلوں کا بارآور ہونا… پھولوں کا کھلنا، خوش بوؤں کا پھیلنا… بادِ بہاری کا چلنا… بادلوں کا برسنا اور زمین کا سیراب ہونا…، چشموں کا جاری ہونا… فضا میں پرندوں کا محوِ پرواز ہونا… مہ و خورشید کاچمکنا…شفق کا حسن… افق کا جمال…سحر کا حسن…صبح کا نظارہ… سب اپنے صانع و خالق ’’اللہ تعالیٰ ‘‘کے وجود پر دلیلیں ہیں… معلوم ہوا کہ اسلام کی دعوت و تبلیغ اگر مشاہداتِ کائنات و مظاہرِ فطرت، تجربات و وقائع اور سائنسی حقائق کی روشنی میں کی جائے تو’’ایمان و ایقان‘‘ کی روشنی پھیلے گی…اور بزمِ حیات میں خوش گوار انقلاب آئے گا… صداقت کی صبح نمودار ہو گی… ایمان کی تازگی چھا جائے گی…
دین اسلام فطرت کے تقاضوں کو پورا کرتا ہے… فطرت کے عین مطابق ہے… وہ مذاہب جو انسانوں کے بنائے ہوئے ہیں؛ وہ چند توہمات و مفروضات کا مجموعہ ہیں… اور عقل و روحانیت کسی ذرائع سے ان کی تائید نہیں ہوتی… جب کہ اسلام کا حسن نکھرتا جاتا ہے اس لیے کہ یہ ’’خدائی دین‘‘ ہے اور دین مبین ہے…. اِنَّ الدِّ یْنَ عِنْدَاللّٰہِ الْاِسْلَامُ (سورۃ آل عمران:۱۹)… ’’بے شک اللہ کے یہاں اسلام ہی دین ہے‘‘ (کنزالایمان)
*تفکر کی تعلیم:*
قرآن مقدس میں عقل و خرد رکھنے والوں کو مختلف انداز میں تعلیم فرمائی گئی… کہیں عناصرِ فطرت میں غواصی اور فکر کا حکم دیا گیا تو کہیں اپنی نشانیاں اور نوع بہ نوع عجائب دکھائے گئے… کہیں کائنات کے مطالعہ کی ترغیب دلائی گئی… دوسری طرف ہمارا یہ حال کہ ہم قرآن مقدس نہیں دیکھتے… اس کے بحرِ حکمت میں غواصی نہیں کرتے… قرآن کے احکامات پر عمل نہیں کرتے… ورنہ اسرار و معارف کھلتے… فکر و نظر کی پاکیزگی کا بہت کچھ سامان ہوتا… کیسی سچی اور شبہے سے ورا باتیں ہیں کہ… عقل کو روشنی ملتی ہے اور شعور کی گرہیں کھل جاتی ہیں…
(الف) وَیُرِ یْکُمْ اٰیٰتِہٖ لَعَلَّکُمْ تَعْقِلُوْنَ (سورۃ البقرۃ:۷۳)
’’اور تمہیں اپنی نشانیاں دکھاتا ہے کہ کہیں تمہیں عقل ہو‘‘ (کنزالایمان)
(ب) قَدْ بَیَّنَّا لَکُمْ الْاٰیٰتِ اِنْ کُنْتُمْ تَعْقِلُوْنَ (سورۃ آل عمران:۱۱۸)
’’ہم نے نشانیاں تمہیں کھول کر سنا دیں اگر تمہیں عقل ہو‘‘ (کنزالایمان)
*عقلی استدلال:*
اسلام کے داعی و سچے مبلغ کا اسلام کے اصول ومبادیات کے ساتھ ساتھ زمانے کے حالات و ضروریات سے باخبر ہونا لازمی ہے…زمانے کی رفتار کے ساتھ ساتھ تقاضے بھی سر ابھارتے ہیں… اور فتنوں کی حالتیں بدلتی رہتی ہیں اور ان کے طریقے بھی… اسلام کے مقابل جتنے فتنے وجود پاتے ہیں وہ نئی نئی راہیں تلاش کرتے رہتے ہیں… باطل نت نئے ہتھکنڈوں سے لیس ہو کرسامنے آتا ہے… قرآن مقدس وہ کتاب ہدایت ہے کہ مستقبل میں ظہور پذیر ہونے والے تمام اعتراضات، فتنوں، ایہام، ازموں اور لادینی فکروں کا جواب اس میں موجود و مذکور ہے… لیکن ان حقائق سے چشم پوشی اورعدم استقامت سے بسا اوقات دانشِ مغرب کے جلوے نگاہوں کا غازہ چھین لیتے ہیں…
یہ بھی مشیت کا اہتمام و انتظام ہے کہ… جس عہد میں دین کے مقابلے میں جس طرح کا معاملہ سامنے آیا اور باطل نے سر اُبھارا اس کے جواب کے لیے اہلِ حق کو ایسی دلیل عطا کی گئی کہ باطل کے لیے وہ مسکت و دنداں شکن ثابت ہوئی… اور بالآخر غلبہ اسلام کو ہی ملا… جب فلسفۂ یونان اپنی فتوحات کے نتیجے میں فکر غلط کا شکار ہو کر وجودِ باری تعالیٰ کو جھٹلانے کے در پے ہوا تو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو مسیحائی عطا کی گئی…فرعونِ مصر کے طلسم ساحری کے بت کو پاش پاش کرنے کے لیے عصائے موسوی سامنے آیا… اور قوم عرب جن کو زبان و بیان پر ملکہ حاصل تھا؛ جو اپنی فصاحت و بلاغت پر نازاں و شاداں تھے؛ ایسے کہ دوسروں کو بے زباں جانتے اور’’ عجمی‘‘ کہتے، خاتم الانبیاء سید عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم پر جب قرآن مقدس کا نزول ہوا تو وہ بے زباں ہو کر رہ گئے… رب تعالیٰ کے کلام کے آگے ہر دعوے دَم توڑ گئے اور اسلام کی سچائی دعوتِ حق دینے لگی ؎
ترے آگے یوں ہیں دبے لچے فصحا عرب کے بڑے بڑے
کوئی جانے منہ میں زباں نہیں، نہیں بلکہ جسم میں جاں نہیں
(اعلٰی حضرت)
قرآن مقدس کی ہدایت و رہنمائی اور عظمت و شان ہر شعبہ ہائے حیات میں مسلّم ہے… زمانے کے اعتبار سے ماضی و حال کے ساتھ ساتھ یہ مستقبل کا بھی رہنما ہے… یہ جہاں ناقابلِ تردید روحانی دلائل رکھتا ہے؛ وہیں پر ظہور میں آنے والے افکار و نظریات، تجربات و مشاہدات، خیالات و رجحانات کے مقابل حق و صداقت کی تائید و نصرت میں عقلی و حسی استدلال کی ناقابلِ تردید قوت بھی رکھتا ہے… ضرورت اس سے استفادے کی ہے… اس کے بحرِ عرفان میں غواصی کی ہے…