میں جب اپنے رب کے حضور پیش ہوں گا۔ اس کو وہ سب قصے سناوں گا جو میں نے دیکھے اور میرے ساتھ پیش آئے ۔
میری ماں مجھے کبھی ایدھی فاؤنڈیشن اور کبھی ہمدرد دواخانہ کہتی تھی ۔کیوں کہ سب زمانے کے دکھ مجھے محسوس ہوتے تھے۔ میں اپنے رب کو بتاؤں گا وہ سب کچھ جو اس کو پہلے سے پتہ ہیں۔میں کیسے کیسے انسانوں کی دلجوئی کرتا تھا اور وہ کیسے میرا دل دکھاتے تھے۔ میں نے کبھی کسی سے شکوہ نہیں کیا اور اگر دل زیادہ دکھ گیا تو اپنے رب کو بتا دیا۔ لوگ میری طاقت کو میری بے بسی سمجھتے تھے۔ انکو کیسے بتاتا جو رب کے حضور پیش ہوتے ہیں وہ اور کسی در یا دربار پر پیش نہیں ہوتے۔ میں نے ساری زندگی سر اٹھا کر گزار دی اور اس میں مجھے میرے رب کی مکمل حمایت حاصل رہی۔ مجھے بہت سارے فرعونوں کا ساری زندگی سامنا رہا میں مسکرا کر ایک طرف ہوگیا اور انکا سامنا اپنے رب باری تعالیٰ سے کروادیا۔ اب رب جانے اور وہ جانے۔ میرا اس میں کیا جاتا ہے۔ لائلپور سے پچیس کلومیٹر دور پھرالہ گاؤں سے لاکر مجھے اسلام آباد میں آباد کردیا۔ الحمدللہ مجھے لوگوں سے زیادہ دیکھنے کی صلاحیت دی اور مجھے خوب اپنی دنیا دکھائی ۔ میں دیکھتا رہا اور کیمرے اور الفاظ میں محفوظ کرکے دنیا کو بھی دکھاتا رہا ۔ مجھے نہیں پتہ کہ یہ میری ڈیوٹی ہے یا نوکری۔ میں مکمل محنت سے اپنا کام جاری رکھے ہوئے ہوں ۔ میں روزانہ تصاویر بناتا ہوں مضمون لکھتا ہوں۔ اپنے رب کے حضور سجدہ ریز ہوتا ہوں۔ میرے رب کے مجھ پر بے شمار کرم ہیں۔ ان کرموں میں سے ایک۔ میں روتے روتے ہنسنے لگ جاتا ہوں۔ یہ کرم مجھے شاید ہی اور کسی میں نظر آیا ہو۔ میں زندگی میں بلاتحقیق کسی بات پر یقین نہیں کرتا اور کوشش کرتا ہوں جب بھی کوئی بات سامنے آئے تو اس کی تحقیق کروں۔ یہاں تک کے قرآن مجید کی آیات ہوں یا احادیث، میں اس کے ریفرنس نمبر کو مختلف ذرائع ابلاغ سے تصدیق کرتا ہوں اور پھر اس کو شیئر یا بیان کرتا ہوں۔ کیونکہ برا گمان بھی گناہ ہے۔ سوشل میڈیا پر لوگوں کی یہ ایک عادت بن گئی ہے کہ جو بھی چیز سامنے آئے اس کو بلاتحقیق آگے شیئر کردو۔ میں زندگی میں ایسے لوگوں سے بھی گریز کرتا ہوں۔ مجھے یاد ہے ایک انسان مجھے محمد اظہر حفیظ کے بارے میں بتا رہا تھا کہ وہ شراب بہت پیتا ہے۔ میں نے عرض کی جناب میرے علم میں ہے کہ وہ بندہ تو کھانسی کا شربت بھی پئے تو الٹی کردیتا ہے۔ نہیں جناب آپ نہیں جانتے محمد اظہر حفیظ کو۔ میں نے عرض کی شاید میں ہی سب سے بہتر جانتا ہوں۔ وہ گویا ہوئے وہ کیسے عرض کی اس لیے کہ میں ہی محمد اظہر حفیظ ہوں۔ پھر شکل دیکھنے والی تھی۔ سنی سنائی بات کو بیان کرنا شخصیت اور ایمان کی کمزوری ہے۔ میرے بارے میں آپ سے کوئی بھی بات کرے تو برائے مہربانی مجھ سے اس کی تصدیق کرلیں کیونکہ میری کوئی برانچ نہیں ہے۔ اگر آپ تصدیق نہیں کریں گے تو یاد رکھنا جب میں اپنے رب کے حضور پیش ہوں گا تو ان کو بتاؤں گے تیرے بندے کانوں کے کتنے کچے تھے۔ اتنا دنیا کو نقصان کچے کے ڈاکوؤں نے نہیں پہنچایا جتنا کانوں کے کچوں نے پہنچایا۔ الحمدللہ میں اپنی نوکری کے علاؤہ اپنا وقت تحقیق اور پڑھائی میں لگاتا ہوں ۔ جس کا ثبوت چار کتابوں کی شکل میں حاضر ہے۔ اور جو میں سوچتا ہوں لکھ کر دوستوں سے شیئر کردیتا ہوں۔ زندگی زیادہ گزار دی ہے کچھ رہ گئی ہے ۔ میں گزری زندگی قلم بند کررہا ہوں ۔ محبتوں کا متلاشی ہوں سازشوں اور نفرتوں کی مجھے سمجھ بوجھ نہیں ہے۔ میرا رب مجھے عزت دے یا ذلت اس کی رضا میں میری رضا۔ رب دی رب جانے سوھنے رب دے حوالے۔