Site icon اردو

ستمبر ہر دشمن کے لیے ستمگر


یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ ستمبر دشمنان اسلام اور دشمنان پاکستان کے لیے ستمگر ثابت ہوا ہے۔ ہر سال ستمبر کی چھ تاریخ کو پوری قوم پاکستانی سرحدوں کی محافظ افواج کی طرف سے پاکستان کے ازلی دشمن بھارت کو سبق سکھانے کی یاد میں “یوم دفاع پاکستان” مناتی ہے اور ستمبر کی سات تاریخ کو پاکستان کے نظریاتی محافظوںکی جانب سے قادیانیوںکو آئینی طور پر غیر مسلم قرار دینے پر ملک بھر میں “یوم دفاع ختم نبوت” منایا جاتا ہے۔

اس فتح کے پچاس سال پورے ہونے پر گولڈن جوبلی منائی جا رہی ہے۔ یوں یہ مہینہ نظریاتی و جغرافیائی سرحدوں کی حفاظت کے حوالے سے انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ ہم نے گزشتہ کالم میں عقیدہ ختم نبوت کے دفاع کے حوالے سے امیر شریعت سید عطاء اللہ شاہ بخاری رحمہ اللہ علیہ سے مولانا مفتی محمود رحمہ اللہ علیہ تک اوردیگر اکابرین کی جدوجہد اور تحریک ختم نبوت کے ہزاروں گم نام شہداء کے حوالے سے سیر حاصل گفتگو کی تھی، آج جغرافیائی سرحدوں کے دفاع، چھ ستمبر کے معرکے اور پاکستان کے نظریاتی اور سرحدوں کے دفاع کے حوالے سے درپیش موجودہ چیلنج پر روشنی ڈالیں گے۔

چھ ستمبر کا دن قوم اور افواجِ پاکستان کے لیے قابلِ فخر دن ہے۔ یہ دن ہمیں جنگ ستمبر کے شہیدوں اور غازیوں کی یاد دلاتا اور وطن عزیز کے دفاع کے لیے تجدید عہد وفا کا تقاضا کرتا ہے۔ آج سے 59 سال قبل اسی مہینے کی چھ تاریخ کو پاکستان کی مسلح افواج کے جوانوں نے بھارتی جارحیت کے خلاف اپنی آزادی اور قومی وقار کا دفاع کیا تھا۔ تاریخی اعتبار سے چھ ستمبر کا دن ہماری بہادر افواج کی بہادری، جرأت، عزم صمیم اور ایثار و قربانی کا استعارہ بن چکا ہے۔

بلامبالغہ چھ ستمبر 1965 کا دن عسکری اعتبار سے تاریخ عالم میں کبھی نہ بھولنے والا قابلِ فخردن ہے جب کئی گنا بڑے ملک نے افرادی تعداد میں کئی گنا زیادہ لشکر اور دفاعی وسائل کے ساتھ اپنے چھوٹے سے پڑوسی ملک پر کسی اعلان کے بغیر رات کے اندھیرے میں حملہ کر دیا، بین الاقوامی سرحدوں اور قوانین کو اپنے پاؤں تلے روندا، جواب میں اس چھوٹے مگر غیور اور متحد ملک نے اپنے دشمن کے جنگی حملے کا اس پامردی اور جانثاری سے مقابلہ کیا کہ دشمن کے سارے عزائم خاک میں مل گئے۔ ذلت و رسوائی کے ساتھ پسپائی پر بھارت کو بین الاقوامی سطح پر شرمندگی اٹھانا پڑی۔ 1965میں بھارت اور پاکستان کے درمیان ہونے والی اس جنگ میں ثابت ہوا کہ جنگیں ریاستی عوام اور فوج متحد ہو کر لڑ اور جیت سکتی ہیں۔

59 سال قبل افواج پاکستان کے افسروں، جوانوں، بحریہ کے جانبازوں اور فضائیہ کے شاہینوں نے غیور پاکستانی قوم کے شانہ بشانہ دنیا پر ثابت کیا کہ وہ ہر قیمت پر مادرِ وطن کے چپے چپے کے دفاع کے لیے ہمہ وقت تیار رہتے ہیں۔ قوم اور مسلح افواج نے ثابت کیا کہ حجم اور عددی برتری کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی بلکہ سب سے زیادہ اہمیت جذبہ، ولولہ اور جرأت و بہادری کی ہوتی ہے۔

انتہاپسند ہندوؤں کو سب سے بڑی تکلیف اس دن ہوئی تھی جب ہندوستان کا سینہ چیر کر پاکستان معرض وجود میں آیا تھا اور دوسری بڑی تکلیف 6 ستمبر 1965کی جنگ میں عبرتناک شکست کی شکل میں ہوئی، یہ دونوں زخم آج بھی انتہاپسند ہندوؤں کی نیندیں حرام کیے ہوئے ہیں، یہی وجہ ہے کہ وہ پاکستان کو مٹانے کے خواب دیکھتے ہیں اور آج بھی اکھنڈ بھارت کے نعرے لگاتے ہیں۔

پاکستان کو مٹانے کے لیے ہمیشہ دشمن نے سازشوں کے جال بنے، کبھی براہ راست جنگیں مسلط کیں، کبھی دہشت گردی کا سہارا لیا، کبھی سفارتی محاذ پر پاکستان کے خلاف منفی پروپیگنڈا کیا کبھی فالس فلیگ آپریشن کے ذریعے پاکستان کو بدنام کرنے کی کوشش کی لیکن ہر بار دشمن کو منہ کی کھانا پڑی۔ ریاست پاکستان، افواج پاکستان، اور پوری قوم نے دشمن بھارت کے عزائم کا ناصرف ہمیشہ مقابلہ کیا بلکہ انھیں خاک میں ملایا۔ دشمن اپنی سازشوں سے باز نہیں آرہا، اس نے پاکستان کی معاشی ترقی کی راہ میں ہمیشہ روڑے اٹکائے، تاریخ کے اوراق اٹھائیں تو بے شمار مثالیں موجود ہیں، لیکن میں تازہ مثال اپنے قارئین کے سامنے رکھتا ہوں، جس دن سے پاکستان اور برادر ملک چین کے درمیان سی پیک منصوبے پر کام شروع ہوا ہے اس دن سے بھارت کے سینے پر سانپ لوٹ رہے ہیں۔

اسے یہ منصوبہ ہضم نہیں ہوا، اسی لیے اسے سبوتاژ کرنے کے لیے اس نے دہشت گردی کا سہارا لیا۔ دہشت گرد تنظیموں کو پاکستان میں قتل عام پر اکسایا۔بے شمار شواہد سامنے آچکے ہیں کہ ان دہشت گرد تنظیموں کو بھارت فنڈنگ بھی کرتا ہے، انھیں اسلحہ بھی دیتا ہے اور ٹارگٹ بھی۔ جب دشمن براہ راست جارحیت سے اپنے مذموم مقاصد حاصل کرنے میں ناکام ہو گیا تو اب اس نے حکمت عملی بدل لی ہے، اب کرائے کے ان قاتلوں کے ذریعے معصوم پاکستانیوں کا قتل عام کرا رہا ہے۔ سیکیورٹی فورسز، علماء اور عوام پر حملے ہورہے ہیں۔

گزشتہ ہفتے ان سفاک درندوں نے بلوچستان کی سرزمین کو لہو لہان کردیا۔ دہشت گردی، شدت پسندی، سفاکیت، لاقانونیت اور شیطانیت کے ان پیروکاروں نے اپنے بیرونی آقاؤں کے حکم پر درندگی اور وحشت کا بھیانک مظاہرہ کرتے ہوئے چند گھنٹوں میں مختلف واقعات میں پچاس بے گناہوں کو شہید کردیا۔ قلات کے نواح میں دہشت گردوں نے ایک سب انسپکٹر سمیت 4 لیوز اہلکاروں اور5 شہریوں کو شہید کیا۔ جواب میں سیکیورٹی فورسز نے آپریشن کرتے ہوئے 21 دہشتگر جہنم واصل کیے، آپریشن کے دوران قانون نافذ کرنے والے اداروں کے 4 اہلکار بھی شہید ہوئے۔

ایک ہی دن میں رونما ہونے والے دہشت گردی کے مختلف واقعات میں پچاس افراد کی شہادت پردل خون کے آنسو رو رہا ہے۔ زبان بولنے سے عاجز اور قلم لکھنے سے قاصرہے، کیا قصور تھا ان بے چارے نہتّے پاکستانیوں کا جو اپنے بچّوں کے لیے رزق کی تلاش میں گھروں سے نکلے تھے لیکن دہشت گردوں نے نہایت ہی سفّاکی، بربریّت و بے رحمی کے ساتھ انھیں موت کی نیند سلا دیا۔ کالعدم دہشت گرد تنظیم بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) نے اس حملے کی ذمے داری قبول کی ہے مگر اس کے پیچھے ہمارے دشمنوں کا ہاتھ ہے یہ وہ لوگ ہیں جن کو ملک دشمن طاقتیں استعمال کرتی ہیں۔

کلبھوشن یادیو بھارت کی بلوچستان میں مداخلت کا سب سے بڑا ثبوت ہے۔ دہشت گردی کے یہ واقعات چھ ستمبر 1965کے حملے سے زیادہ خطرناک ہیں، اس وقت دشمن نے براہ راست حملہ کیا تھا لیکن اب دشمن کرائے کے قاتلوں کے ذریعے حملہ آور ہے، ان کا قلع قمع کرنا ازحد ضروری ہے بلوچستان میں لرزہ خیز دہشت گردی کے ان واقعات کے بعد ہر مکتب فکر، ہر طبقے اورعوام الناس نے حکومت، افواج پاکستان، قانون نافذ کرنے والے اداروں اور عدلیہ سے پرزور مطالبہ کیا ہے کہ ملک میں انتشار، بدامنی، لاقانونیت، فساد اور دہشت گردی پھیلانے والے ان عناصر کو کیفر کردار تک پہنچانے کے لیے راست اقدامات کیے جائیں اور ان کی کمر توڑ کر دشمن کے عزائم ایک بار پھر خاک میں ملادیے جائیں۔ یاد رکھیں جب تک پاکستان کا دفاع ناقابل تسخیر نہیں ہوگا تب تک ہم بحرانوں کی دلدل سے نہیں نکل پائیں گے۔

آج پھر دشمن مختلف محاذوں سے پاکستان کی نظریاتی و جغرافیائی سرحدوں پر ضربیں لگا رہا ہے، اپنے کرائے کے کارندوں کے ذریعے کبھی اسلام اور ہمارے ایمان پر حملے ہورہے ہیں۔ دشمن اس بات کو بھول رہا ہے کہ جغرافیائی سرحدوں کا معاملہ ہو یا نظریاتی سرحدوں کی بات، ہم نے ہر دونوں محاذوں پر اپنے اکابرین اور جوانوں کا لہو دے کر دفاع کیا ہے۔ ہم چھ ستمبر کے شہداء کی قربانیاں اور نہ عقیدہ ختم نبوت کا دفاع کرنے میں جان نچاور کرنے والے گمنام شہداء کی قربانیاں فراموش ہونے دیں گے۔ ہم نظریاتی و جغرافیائی سرحدوں کی حفاظت بھی کریں گے اور اپنے شہداء کی قربانیوں کو بھی زندہ وجاوید رکھیں گے، یہی زندہ قوموں کا شیوہ ہے۔

میں آخر میں یہ بتاتا چلوں کہ 7 ستمبر کوعالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے زیر اہتمام مینار پاکستان کے گراؤنڈ میں ختم نبوت کانفرنس کا انعقاد ہو رہا ہے، جس میں اکابرین ملت، ختم نبوت کے پروانے اس نظریاتی محاذ پر قربانیاں دینے والوں کو خراج عقیدت پیش کریں گے، ہرمسلمان کو اس کانفرنس میں ضرور شریک ہونا چاہیے۔ یہ بات یاد رکھیں کہ جس طرح وطن کے دفاع کی خاطر قربانیاں دینے والوں کو اعزازات سے نوازا جاتا ہے عین اسی طرح نظریاتی سرحدوں کی حفاظت میں مر مٹنے اور دفاع کرنے والوں کو بھی اعزازات سے نوازنا چاہیے۔ میرا ایمان و یقین ہے کہ انشاء اللہ بروز محشر ان شہداء کو شافع محشر کے ہاتھوں اللہ رب العزت اعلیٰ اعزازات سے ضرور نوازیں گے ایسے اعزازات جس کا ہم تصور بھی نہیں کرسکتے لیکن ان شہداء کا اسلامی ریاست پاکستان پر بھی حق ہے۔





Source link

Exit mobile version