نورجہاں ثروت سے میری پہلی ملاقات دبئی میں ہوئی تھی۔ وہ دلّی سے شعر سنانے آئی تھیں اور مجھے سلیم جعفری نے اردو شاعرات کی تاریخ پرکچھ کہنے کے لیے بلایا تھا۔ اس مشاعرے کی صدارت محترمہ ممتاز مرزا کر رہی تھیں۔ ثروت سے ملاقات کا ٹانکا اسی وقت ٹوٹا جب دلّی میں انھوں نے آخری سانس لی۔ ندیم صدیقی ان کی اور میری دوستی سے واقف ہے، اسی لیے ان کے لحد میں اترنے سے پہلے مجھے خبرکی۔ میری آنکھوں میں ان کا ذہین چہرہ اور ہنستی ہوئی آنکھیں گھوم گئیں۔ اپنے ہی بارے میں انھوں نے کیا خوب لکھا ہے۔
اپنے ہی بل پر زندہ رہے، عمرکٹ گئی
عمر انھوں نے واقعی اپنے بل پرگزاری اورکسی کو زحمت دیے بغیر لحد میں جا سوئیں۔ شارب رودلوی صاحب نے لکھا تھا کہ ان کا یہ مجموعہ زندگی کے لق و دق صحرا میں ان کے قدم کا پہلا نشان ہے جس پر انھیں اور بہت سے نشان ثبت کریں گی۔ شارب صاحب نہیں رہے ورنہ ان سے کہتی کہ ثروت چلی گئی ہیں، اب کوئی نہیں،کوئی نہیں آئے گا۔
دبئی کی یہ دوستی اتنی گہری ہوئی کہ ہم دونوں کو یقین نہیں آتا تھا، وہ کراچی آئیں تو میرے گھرآئیں، ٹھہریں اور ہم نے خوب گپ کی۔ بیگم عالی نے انھیں بیٹی بنایا ہوا تھا۔ وہ مجھ پر ناراض ہوئیں کہ تم نے اسے کیوں اپنے یہاں ٹھہرایا ہوا ہے۔ میں نے ترنت جواب دیا کہ وہ میری گوئیاں ہے اس لیے پہلا حق میرا ہے۔ اسی نوک جھونک کے بعد طیبہ بھابھی نے ثروت کے لیے گاڑی بھجوا دی۔ میں دلّی جاتی تو شاہدرہ میں اس کے گھر جاتے۔ ہم گھنٹوں باتیں کرتے۔ اس نے میرے لیے فسانۂ آزاد اور طلسم ہوشربا کی تمام جلدیں خریدیں۔ اول تو وہ سستی اس پر سے ثروت کو ملنے والا کمیشن۔
ثروت ایک اچھی شاعرہ تھی۔ اس کے علاوہ وہ دہلی کے ’’ قومی اخبار‘‘ اور ’’انقلاب‘‘ ممبئی کی ریزیڈنٹ ایڈیٹر۔ قومی ریڈیو اور ٹیلی وژن سے وابستہ۔ قومی اور بین الاقوامی معاملات پرگہری نظر۔ پاکستان اور ہندوستان کٹا چھنی پر ہم دونوں زار زار روتے لیکن جانتے تھے کہ ہمارا رونا دھونا کسی کام نہیں آئے گا، ہم تو شطرنج کی بساط پر وہ پیادہ بھی نہیں جو آخر میں کوئی حیثیت اختیار کرلیتا ہے۔
ثروت کے وہ چند اشعار جو مجھے پسند ہیں، ان کا بھی کچھ ذکر ہو جائے۔
اونچے ہیں جو مکان، چھتیں ان کی پست ہیں
رہنا ہے ان میں آپ کو تو سر تراشیے
ہوئے ہیں شہر انسانوں سے خالی
کہ تہذیبیں بسی ہیں جا کے بن میں
آج کے حالات اور رشتوں کی نابودی کے بارے میں انھوں نے کیا خوب کہا ہے کہ:
ہاں ہم نے جلا ڈالے ہیں رشتوں کے قبالے
وہ ایک امن پسند خاتون تھیں اور اس کی جھلکیاں ان کی غزلوں کے اشعار اور ان کی نظموں میں نظر آتی ہیں۔ ان کی ایک نظم ’’ لہو کے ہتھیار‘‘ پڑھیے جو فروری 1991 میں لکھی گئی۔
لہو کے ہتھیار
خدا کے بندے نے بندشوں کی
ستم کشی کی سبھی رداؤں
اذیتوں کی سبھی قباؤں کو
تار تار کرنے کی ٹھان لی ہے
یہ باتیں وہ ہیں
کہ جن کو لکھنے میں ہر مؤرخ
ندامتوں سے نظر جھکائے
یہ سوچتا ہے
کہ ننگی سچائیوں کوکیسے
وہ آج لفظوں کا پیرہن دے
جو آدمی نے ستم کیے ہیں
بنامِ انسانیت زمیں پر
اور اسلحوں سے بھرے ٹھکانوں سے
بہہ رہی ہیں
فلاکتوں اور ہلاکتوں کی ہزاروں ندیاں
جو کر گئی ہیں
دلوں کی سب بستیوں کو ویراں
وہ آنکھیں بے رحم ہوں گی کتنی
جو کالی کی رُوح میں اُتر کر
تباہیوں کو جلو میں لے کر
لہو کے دریا کی آگ بن کر
خوشی خوشی موت کا رقص دیکھتی ہیں
وہ قلب کتنے سیاہ ہوں گے
رگوں سے جن کی
دھوئیں کے بادل
اُمنڈ رہے ہیں
فضا کو آلودہ کر رہے ہیں
وہ جن کے دعوؤں میں شیطنت ہے
غرور جن کی متاعِ جاں ہے
نحوستوں کے
تباہیوں کے
دلوں میں اپنے ارادے لے کر
وہ ہو کے بے باک سوچتے ہیں
ذرا جو مِل جائے اور طاقت
تو ساری دنیا
ہمارے قدموں پہ آگرے گی
ہمیں ہی سجدے کیا کرے گی
مگر خدا کا وہ ایک بندہ
ہے جس کی طاقت، خدا پرستی
وہ زر پرستوں کے آگے
دیوار بن گیا ہے
لہوکی تلوار بن گیا ہے
تمام ظلم و زیادتیوں کو
اسی زمیں پر وہ سہہ گیا ہے
کہ جس میں سویا ہے لشکرِ حسینیؓ
یہ وہ زمیں ہے
جو آلِ احمدؐ کے صبر اور شکر کی امیں ہے
یہ جبرکی، خونچکاں کہانی کی
شاہدِ بے زباں ہے
صداقتوں کی حکایتوں کا
جو ایک طوفانِ بے کراں ہے
کوئی اگر لکھ سکا کبھی تو
یہ جبرکی داستان ہوگی
جو اشکِ خوں سے بیان ہوگی
یہ وہ نظم ہے جو اس انسان نے لکھی جس نے کوریا کی جنگ کے واقعات پڑھے، ویت نام کی جنگ اور اپنے ملک کے بلوے اور فسادات بھگتے ’’ہزار چوراسی کی ماں‘‘ اور ’’غدار‘‘ جیسے افسانے اپنے دل پر جھیلے۔
وہ ایک ثروت مند انسان تھیں، خوش ادا اور دلربا تھیں اتنا دکھ کیسے جھیلتیں۔ اسی لیے انھوں نے رشتوں کے قبالے جلا دیے اور منہ پھیرکر جا سوئیں۔