[ad_1]
یہ وہ جنون ہے جو بی جے پی کے خمیر میں رچا بسا ہے۔اس کے بغیر بی جے پی زندہ ہی نہیں رہ سکتی، اس کا ایک نمونہ حال ہی میں راجستھان کے تجارا (ضلع الور) اسمبلی حلقے میں دیکھنے کو ملا جہاں بی جے پی لیڈر سندیپ دایما نے ہندو کمیونٹی سے جذباتی اپیل کرتے ہوئے کہا:
“اگر کانگریس امیدوار اس اسمبلی حلقے سے جیتتا ہے تو مسجدوں اور گرو دُواروں کی تعداد بڑھ جائے گی اور یہاں رہنے والوں کے لیے بڑی مشکل ہوجائے گی۔اگر ہم اقتدار میں آئے تو مسجدوں اور گرو دُواروں کو اکھاڑ پھینکیں گے۔”
سندیپ دایما نے یہ نفرتی بھاشن دو نومبر کو دیا۔جس وقت یہ بھاشن دیا گیا اسٹیج پر موجود یوپی کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے تالیاں بجا کر دایما کی حوصلہ افزائی کی، جو توقع کے عین مطابق بھی تھی کہ فرقہ واریت ہی یوگی آدتیہ ناتھ کا بھی محبوب مشغلہ اور موضوع ہے۔
لینے کے دینے پڑ گیے
سندیپ دایما نے بی جے پی اعلیٰ کمان کی نظروں میں چڑھنے کے لیے بیان تو دے دیا لیکن تقدیر خراب تھی کہ مسجد کے ساتھ ‘گرو دوارہ’ لفظ بھی منہ سے نکل گیا۔بس اسی بات پر سِکھ قوم میں ناراضی پھیل گئی اور ان کی مذہبی قیادت شرومنی گرو دوارہ پربندھک کمیٹی(SGPC) اور سیاسی لیڈران نے اس پر سخت اعتراض جتاتے ہوئے بیان واپس لینے کا مطالبہ کیا۔سِکھوں کے خوف اور سیاسی قوت سے ڈر کر سندیپ نے فوراً ہی ویڈیو بیان جاری کرتے ہوئے ہاتھ جوڑ کر معافی مانگتے ہوئے یوں کہا:
“وہ مسجد اور مدرسہ کہنا چاہتے تھے لیکن غلطی سے مسجد کے بعد گرو دوارے کا لفظ نکل گیا میں پورے سِکھ سماج سے ہاتھ جوڑ کر معافی چاہتا ہوں۔”
ایس جی پی سی( SGPC) نے دایما کی معافی پر تنقید کرتے ہوئے یہ بیان جاری کیا:
“دایما کو شرم آنی چاہیے کیوں کہ مسلمانوں کے مذہبی مقامات کے خلاف بولنا بھی سکھوں کے مذہبی مقامات کے خلاف بولنے کی طرح قابل مذمت ہے۔”
ایس جی پی سی(SGPC) کا رویہ جہاں قابل تعریف ہے وہیں حالیہ معاملہ دو وجہوں سے انتہائی افسوس ناک ہے:
1۔مسلمانوں کے سیاسی بے قدری سے
2۔قیادت کی خاموشی سے
حالیہ واقعے سے ایک بار پھر ظاہر ہوگیا کہ بھارت میں سیاسی اعتبار سے مسلمان انتہائی بے قدر وقیمت ہوچکے ہیں جن کے مقدسات کے توہین کرنا بھارت میں سب سے آسان کام ہے۔اسی لیے سندیپ دایما جیسا معمولی سا نیتا کتنی بے خوفی کے ساتھ سرِ عام مساجد ومدارس کو ختم کر دینے کی دھمکیاں دے جاتا ہے۔
ایک طرف سکھ قیادت کی خود داری ہے کہ وہ اپنے مذہبی مقام کا نام آتے ہی مخالفت پر اتر آئے۔گرو دوارے کا نام لینے پر سخت رویہ اپنایا۔سندیپ دایما سے معافی منگوائی اور بی جے پی کو بیک فٹ پر جانے پر مجبور کر دیا، دوسری جانب ہماری قیادت ابھی تک کانوں میں تیل ڈالے سو رہی ہے۔وہ تو ایس جی پی سی نے سخت رویہ اختیار کر لیا جس کی وجہ سے یہ معاملہ سرخیوں میں آ گیا ورنہ صرف مسجد کا معاملہ ہوتا تو یہ خبر سرخیوں میں بھی نہیں آتی، لیکن ہنگامے کے باوجود مسلم قیادت نے ہمت دکھانا تو دور رسمی مذمت کی زحمت بھی نہیں کی۔کیوں کہ ہماری مذہبی قیادت مصلحت وحکمت کے نام “در گزر اور صبر” کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔جب کہ سیاسی قیادت کو پارٹی ہائی کمان کی طرف سے سختی سے پابند کر دیا جاتا ہے کہ مذہبی امور پر بولنے سے سیکولر پارٹیوں کو نقصان ہوسکتا ہے اس لیے ایسے ایشوز پر مکمل خاموش رہنا ہے۔بس مسلم سیاست دان اطاعت شعاری کا ایسا نظارہ پیش کرتے ہیں جسے دیکھ کر ملک کافور کی روح بھی شرمندہ ہوجائے۔آسمان گرتا ہو تو گر جائے، زمین پھٹتی ہو تو پھٹ جائے لیکن ہمارے سیاست دان ہائی کمان کی خلاف ورزی کا تصور تک وفاداری کی توہین سمجھتے ہیں بھلے ہی خود کو ذلیل ورسوا ہونا پڑ جائے مگر ہائی کمان کا وقار بنائے رکھتے ہیں۔انہیں رویوں کی بنیاد پر دایما نے گرو دوارے کی توہین پر تو فوراً معافی مانگ لی لیکن مسجد کی توہین پر اس نے ذرہ برابر بھی افسوس نہیں کیا بل کہ نہایت ڈھٹائی کے ساتھ کہا کہ وہ مسجد کے ساتھ مدرسہ کہنا چاہتا تھا یعنی وہ اب بھی مسلم دشمنی کے جنون پر قائم ہے۔
قیادت کی بے حسی
مقدسات اسلام اور مسلمانوں کی توہین کا یہ پہلا اور آخری واقعہ نہیں ہے، اس سے قبل نوپور شرما، نوین جندل، ٹی راجا، پنکی چودھری، کاجل گجراتی، جتیندر تیاگی اور نرسنگھا نند جیسے بدزبان آئے دن اسلام کے خلاف زبان درازی کرتے رہتے ہیں مگر قیادت کی سرد مہری کی وجہ سے ان کی زبان بندی کی سنجیدہ کوششیں نہیں ہوتیں جس کی بنا پر یہ لوگ بے لگام جانور کی طرح غلاظت اگلتے پھرتے ہیں۔ایسا بھی نہیں ہے کہ مسلم دشمنی کے یہ مظاہرے مندروں یا اپنے اسٹیجوں پر ہی ہوتے ہیں اب تو یہ کام اسمبلی اور پارلیمنٹ ہاؤس میں بھی یہ نظارے دکھائی دینے لگے ہیں۔اگست 2018 کو دلی اسمبلی میں بی جے پی کے رکن اسمبلی او پی شرما نے امانت اللہ خان(رکن اسمبلی عام آدمی پارٹی) کو غنڈہ، موالی، آتنکی اور دہشت گرد کہا۔اور ابھی حال ہی میں پارلیمنٹ کے اندر بی جے پی کے رکن پارلیمنٹ رمیش بدھوڑی نے دانش علی(رکن پارلیمنٹ امروہہ) کو ایک درجن سے زیادہ گالیاں دیتے ہوئے، دہشت گرد ملا، کٹوا اور بھڑوا جیسی بے ہودہ اور بدترین گالیاں دیں۔حیرت کی بات یہ ہے کہ نہ امانت اللہ خان کو گالیاں دینے والے او پی شرما کو کوئی سزا ہوئی نہ رمیش بدھوڑی کو کوئی پریشانی! حد تو یہاں تک ہے کہ مسلم لیڈروں کو گالیاں دینے کے بعد سیاسی طور پر ان کو ترقی دی گئی اور انہیں ان کی پارٹی میں نمایاں عہدے دے کر ہندو سماج کو یہ مسیج دیا گیا کہ ترقی کا چھوٹا اور بہترین راستہ اسلام اور مسلمانوں کو گالی دینا ہے۔
حیرت اس بات پر ہے کہ امانت اللہ خان اور دانش علی کو مذہبی بنیادوں پر اتنی گالیاں کھانے کے باوجود اسمبلی پارلیمنٹ سے کوئی انصاف نہیں ملا۔دلی میں تو امانت اللہ خان کی پارٹی بر سر اقتدار ہے۔ستر میں سے 67 سیٹیں ان کے لیڈر کیجری وال کے پاس تھیں لیکن پوری پارٹی نے رسمی سی مذمت کے سوا کچھ نہیں کیا۔اگر کیجری وال چاہتے تو کم از کم او پی شرما کو کچھ وقت کے لیے اسمبلی سے suspended کیا جاسکتا تھا۔فوری طور پر معافی منگوائی جاتی اور معافی نہ مانگنے تک اسمبلی میں داخلہ روکا جاسکتا تھا لیکن افسوس ان دونوں باتوں میں سے کچھ نہیں ہوا۔یہی حال دانش علی کا بھی ہوا، درجنوں گالیاں دینے کے بعد بھی اس گالی باز ایم پی کے خلاف کوئی تادیبی کاروائی نہیں ہوئی، بس فارملٹی کے طور ان کے لیڈر آف ہاؤس نے اظہار افسوس کرکے بات رفع دفع کردی۔اسپیکر نے گالیوں کو پارلیمنٹ کی کاروائی سے نکال دیا اور بات آئی گئی ہوگئی۔
حیرت اسپیکر یا لیڈر آف ہاؤس کے رویے پر نہیں خود مسلم لیڈران کے رویے پر ہے، ان لوگوں کو غیرت وخود دادری کا کچھ تو مظاہرہ کرنا چاہیے تھا۔امانت اللہ خان بے بس لہجے میں او پی شرما کی گالیوں کا شکوہ کرتے رہے تو دانش علی رو رو کر اپنی مظلومیت کی دہائی دیتے رہے مگر غیرت نہ امانت میاں کو آئی اور دانش علی ہمت دکھا پائے نتیجتاً پوری قوم کی جگ ہنسائی ہوئی۔متعصب ہندوؤں کا مورال اونچا ہوا اور اب وہ لوگ پوری قوم کو یہی گالیاں دے رہے ہیں۔
امانت اللہ خان نے ذرا سی ہمت دکھائی ہوتی تو او پی شرما کو اسی طرح اوقات یاد دلا سکتے تھے جس طرح جنوری 2014 میں دلی ہی کے ممبر اسمبلی شعیب اقبال(مٹیا محل جامع مسجد دہلی) نے دکھائی تھی جب بی جے پی ایم ایل اے آر پی سنگھ نے شعیب اقبال کو مذہبی طعنہ دیا تو انہوں نے اپنا کوٹ اتارا اور للکارتے ہوئے کہا ہمت ہے سامنے آؤ ابھی دو دو ہاتھ ہوجاتے ہیں۔اس وقت بی جے پی کے پاس اٹھائیس ممبران تھے اور شعیب اقبال تنہا لیکن ان کی جرأت مندانہ للکار سے سارے بھاجپائیوں کی ہوا اکھڑ گئی اور سب نے ممیاتے ہوئے بات کو ٹالنے ہی میں عافیت سمجھی۔ایسا ہی نظارہ پارلیمنٹ میں سن 2006 میں بھی دکھائی دیا تھا جب اسدالدین اویسی کو بی جے پی ارکان نے داڑھی اور لباس پر طنز کستے ہوئے جانور کہہ دیا۔نوجوان اسدالدین نے کرارا جواب دیتے ہوئے نریندر مودی کو سب سے بڑا جانور کہہ دیا۔مودی ان دنوں گجرات فسادات کی وجہ سے فائر برانڈ لیڈر مانے جاتے تھے اس لیے بھاجپا کی صفوں میں ابال آگیا۔وہ لوگ خطرناک تیوروں کے ساتھ آستین چڑھائے اویسی صاحب کی طرف لپکے، لگا کہ آج کچھ انہونی ہوجائے گی مگر اچانک سے بڑھتے ہوئے قدم تھم گیے۔اویسی صاحب کے بغل میں شیر بہار ڈاکٹر شہاب الدین مرحوم(سابق رکن پارلیمنٹ سیوان) کھڑے ہوگیے۔ان کا صرف کھڑا ہونا ہی بی جے پی کے مشتعل ارکان پر اتنا بھاری پڑا کہ ان کے سارے تیور جھاگ کی طرح بیٹھ گیے، پھر کسی کی کچھ بولنے کی ہمت نہیں ہوئی۔کیوں کہ ڈاکٹر شہاب الدین صاحب کے علاج کے بارے میں انہیں اچھی طرح معلوم تھا۔اس کے بعد لمبے وقت تک کسی کی بدتمیزی کی ہمت نہیں ہوئی۔
یاد رکھیں!
جمہوری ممالک میں سیاسی قوت کے بغیر عزت دیوانے کا خواب ہے۔حالیہ معاملے میں بی جے پی نے سکھوں کی سیاسی قوت ہی کی بنا پر سندیپ سے معافی منگوائی جب کہ تجارا سیٹ پر سکھ قوم بمشکل پانچ فیصد ہے جب کہ چالیس فیصد کی آبادی رکھنے والی مسلم قوم کو سر عام دھمکایا جارہا ہے۔یہ صرف سیاسی یتیمی کا خمیازہ بھگتنا پڑ رہا ہے۔مسلم لیڈران کو چاہیے کہ سیاسی طاقت بنائیں اور غیرت وخود داری کے ساتھ سیاست کریں تبھی ایسی وارداتوں پر لگام کسی جاسکتی ہے ورنہ یہ لوگ اسی طرح طوفان بدتمیزی مچاتے رہیں گے۔بزدل لوگ ہمیشہ تعداد اور طاقت کی بنیاد پر بہادری دکھاتے ہیں لیکن علاج بالمثل ہوجائے تو ان کی ساری بہادری ہوا جاتی ہے اور جمہوری ممالک میں یہ طاقت صرف سیاست کے راستے حاصل ہوتی ہے۔
[ad_2]
Source link