حضرت عبداﷲ بن عمروؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا، مفہوم: ’’مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں۔‘‘ (بخاری و مسلم)
دورِ جدید میں انسانی ایجادات میں سے ایک اہم ایجاد موبائل فون ہے یقیناً یہ ایک مفید ترین ایجاد ہے جس نے فاصلے مزید سمیٹ کر رکھ دیے اور تجارت و معاشرت میں ایک انقلاب برپا کر کے رکھ دیا ہے۔ لیکن ہر چیز کے مفید اور غیر مفید ہونے کا تجزیہ اس پر مرتب ہونے والے نتائج سے کیا جاتا ہے آج کے دور میں جہاں موبائل فون کے بہت سے فوائد ہیں وہاں بعض حالات میں یہ ایک تکلیف دہ چیز بن چکا ہے، اس کی وجہ صرف اس مفید ایجاد کا غلط استعمال ہے۔ اسلام ایک مکمل دین ہے آخری دین ہونے کی بنا پر قیامت تک آنے والے مسائل کا حل بھی پیش کرتا ہے آج اگر ان اسلامی آداب پر عمل کیا جائے تو یقیناً فون ایک مفید چیز ثابت ہوگا۔
رسول اﷲ ﷺ نے مسلمان کی شان ہی یہ ارشاد فرمائی کہ مسلمان وہ شخص ہے جس کی زبان اور اس کے ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں۔ اب موبائل فون کے ساتھ ان دو ہی چیزوں کا گہرا تعلق ہے ایک ہاتھ اور دوسری زبان لہٰذا اس کو باعث رحمت بنانے کے لیے سب سے پہلے قرآن حکیم کا یہ جامع اصول اپنانا لازمی ہے:
’’اور فضول خرچی نہ کرو۔‘‘ موبائل فون سے متعلق ایک تکلیف دہ بات اس کے اخراجات کا حد سے بڑھ جانا ہے اور یہ صرف اس قرآنی اصول پر عمل کرنے سے ہی ممکن ہوگا۔ پھر جب کسی کو فون کیا جائے تو ان تمام آداب معاشرت کا خیال رکھا جائے جو اﷲ تعالیٰ نے قرآن مجید کی سورۃ النور میں ارشاد فرمائے۔
حضرت مولانا مفتی محمد شفیعؒ نے سورۂ نور کی آیت 27 تا29 میں مذکورہ آدابِ ملاقات کے ضمن میں موبائل فون سے متعلق بعض مسائل بھی ذکر فرمائے ہیں، آپ تحریر فرماتے ہیں: ’’کسی شخص کو ایسے وقت فون پر مخاطب کرنا جو عادتاً اس کے سونے یا دوسری ضروریات میں یا نماز میں مشغول ہونے کا وقت ہو، بلاضرورت شدیدہ جائز نہیں کیوں کہ اس میں بھی وہی ایذا رسانی ہے جو کسی کے گھر میں بغیر اجازت داخل ہونے اور اس کی آزادی میں خلل ڈالنے سے ہوتی ہے۔ جس شخص سے فون پر بات چیت اکثر کرنا ہو، تو مناسب یہ ہے کہ اس سے دریافت کر لیا جائے کہ آپ کو فون پر بات کرنے میں کس وقت سہولت ہوتی ہے پھر اس کی پابندی کرے۔ فون پر اگر کوئی طویل بات کرنا ہو تو پہلے مخاطب سے دریافت کر لیا جائے کہ آپ کو ذرا سی فرصت ہو تو میں اپنی بات عرض کروں۔
کیوں کہ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ فون کی گھنٹی بجنے پر آدمی طبعاً مجبور ہوتا ہے کہ فوراً معلوم کرے کہ کون کیا کہنا چاہتا ہے اور اس ضرورت سے وہ کسی بھی حال میں ہو اور کسی بھی اہم ضرورت میں مشغول ہو اسے چھوڑ کر فون اٹھاتا ہے، کوئی بے رحم آدمی اس وقت لمبی بات کرنے لگے تو سخت تکلیف محسوس ہوتی ہے۔
بعض لوگ فون کی گھنٹی بجتی رہتی ہے اور کوئی پروا نہیں کرتے نہ پوچھتے ہیں کہ کون ہے کیا کہنا چاہتا ہے یہ اسلامی اخلاق کے خلاف ہے اور بات کرنے والے کی حق تلفی ہے جیسے حدیث میں آیا ہے: ’’جو شخص تمہاری ملاقات کو آئے اس کا تم پر حق ہے۔‘‘ کہ اس سے بات کرو اور بلا ضرورت ملاقات سے انکار نہ کرو۔ اسی طرح جو آدمی فون پر آپ سے بات کرنا چاہتا ہے اس کا حق ہے کہ آپ اس کا جواب دیں۔‘‘ (بہ حوالہ: معارف القرآن)
ارشادات نبویؐ سے ملاقات کا مسنون طریقہ یہ معلوم ہوتا ہے کہ پہلے سلام کیا جائے پھر آنے والا شخص اپنا نام لے کر کہے کہ فلاں شخص ملنا چاہتا ہے۔ لہٰذا فون پر بھی ملاقات کا یہی طریقہ اپنانا چاہیے۔ مسلمانوں کا اپنا ایک تشخص اور مسنون طریقہ موجود ہے۔ لہٰذا فون کرتے وقت السلام علیکم کہنا چاہیے اور فون کرنے والے کو پہلے اپنا واضع تعارف پیش کرنا چاہیے تاکہ مخاطب کو خوب اچھی طرح معلوم ہوجائے کہ کون فون پر ملاقات کرنا چاہتا ہے۔
سورۂ نور میں ملاقات کا یہ ادب بھی بتایا گیا، مفہوم: ’’اگر ملاقاتی کو کہا جائے کہ ملاقات نہیں ہو سکتی لوٹ جائیے تو اسے لوٹ جانا چاہیے یہی تمہارے لیے بہتر ہے۔‘‘ لہٰذا اگر فون پر کہا جائے کہ اس وقت ملاقات نہیں ہو سکتی تو فون کرنے والے کو خوش دلی سے عذر قبول کر لینا چاہیے، بُرا نہ ماننا چاہیے اور عذر کرنے والے کو بھی اس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ واقعی شدید عذر ہو تو معذرت کرے کیوں کہ ملاقاتی کا بھی ایک حق ہے۔ اگر ملاقاتی نہیں مل سکتا تو پھر موقع کی مناسبت سے پیغام بھی دیا جا سکتا ہے لیکن اس بار ے میں تکلیف دہ بات یہ ہوتی ہے کہ رسمی طور پر پیغام پہنچانے کا وعدہ کر لیا جاتا ہے لیکن ذمہ داری پوری نہیں کی جاتی لہٰذا وعدہ خلافی کا گناہ ہوتا ہے اس لیے اگر مخاطب پیغام پہنچا سکتا ہے تو وہ وعدہ کر کے ذمہ داری پوری کرے ورنہ معذرت کرلے۔
عام زندگی میں خصوصاً فون پر بے جا اور فضول باتیں کرنے سے بچنا چاہیے۔
ارشاد نبوی ﷺ کا مفہوم ہے: ’’قیامت کے دن مجھے ناپسندیدہ ترین اور مجھ سے بہت دُور وہ لوگ ہوں گے جو زیادہ باتیں بنانے والے اور بے احتیاطی سے فضول باتیں کرنے والے ہیں۔‘‘
(رواہ البیہقی)
فون کے ذریعہ ایک اور عام تکلیف بے ہودہ اور بے حیائی سے آلودہ کالیں ہیں۔
ارشاد نبوی ﷺ کا مفہوم ہے: ’’حیا اور پاکیزہ زبان ایمان کی دو شاخیں ہیں اور دل آزار گفت گُو اور بے ہودہ باتیں نفاق کی دو شاخیں ہیں۔‘‘ (ترمذی)
لہٰذا فون پر بے حیائی کی اور بے ہودہ باتیں کرنا کسی بھی طرح مسلمان کی شان نہیں ہے۔
ارشاد نبویؐ کا مفہوم ہے: ’’مومن بے حیائی کی باتیں کرنے والا نہیں ہوتا۔‘‘ (ترمذی)
فون کا ایک غلط استعمال مخاطب کو جھوٹی باتیں سنا کر تنگ کرنا بھی ہے۔
ارشاد نبوی ﷺ کا مفہوم ہے: ’’سب سے بڑی خیانت یہ ہے کہ تُو اپنے مسلمان بھائی سے کوئی بات کہے اور وہ تجھے سچا سمجھ رہا ہو حالاں کہ تُو اس سے جھوٹ بول رہا ہو۔‘‘ لہٰذا یہ دل آزاری بھی ہے اور بڑی بددیانتی بھی۔
عموماً بلااجازت کسی کے ہاں جا کر فون کر لیا جاتا ہے۔
ارشاد نبوی ﷺ کا مفہوم ہے: ’’خبردار! کسی پر ظلم نہ کرنا کسی کا مال اس کی خوشی اور اجازت کے بغیر نہ لینا۔‘‘ (بیہقی)
ارشاد نبوی ﷺ کا مفہوم ہے: ’’کوئی شخص کسی جانور کا دودھ مالک کی اجازت کے بغیر نہ دوہے۔‘‘ (مسلم) لہٰذا کسی کے فون سے بھی بلا اجازت فائدہ نہیں اٹھایا جا سکتا۔ اسی طرح دفاتر کے ٹیلی فون کو بھی ذاتی مقاصد کے لیے استعمال کرنا صریح خیانت ہے اگر اب تک یہ فعل حرام ہوتا رہا ہے تو اندازہ کر کے اتنی رقم دفتری کھاتے میں جمع کرانا ضروری ہے۔
ارشادات نبوی ﷺ میں اچھے اخلاق اپنانے کا حکم دیا گیا۔ لہٰذا فون پر سلیقہ، تہذیب اور شائستگی سے شیریں کلام سے گفت گُو کرنا بھی یقیناً اجر و ثواب کا باعث ہے۔
ارشاد نبوی ﷺ کا مفہوم ہے:
’’اپنے بھائی سے خوش روئی سے ملنا بھی نیکی ہے۔‘‘
ارشاد نبوی ﷺ ہے:
’’بدخلق، بدخُو، سخت گو آدمی جنّت میں داخل نہ ہوگا۔‘‘ (ابوداؤد)
اﷲ تعالیٰ ہمیں ان اسلامی آداب پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے تاکہ موبائل فون جیسی نعمت جو آج کل ایک تکلیف دہ چیز بن چکی ہے وہ ایک مفید نعمت اور راحت کا سبب بن جائے۔