مستقبل میں قدرتی آفات کی شدت میں مزید اضافے کا خدشہ ہے۔ ہندوستان کو آفات سے نمٹنے کے لیے ڈیزاسٹر مینجمنٹ کو کافی بہتر کرنا ہوگا اور ایسے انفراسٹرکچر تیار کرنے ہوں گے جو قدرتی آفات کا سامنا کر سکیں۔
سیلاب کا منظر / آئی اے این ایس
ہندوستان میں قدرتی آفات کے اثرات روز بہ روز بڑھتے جا رہے ہیں۔ ان قدرتی آفات کی وجہ سے سال بہ سال معاشی نقصانات میں بھی بے تحاشہ اضافہ ہو رہا ہے۔ انشورنس کی ایک معروف کمپنی ’سوئیس ری‘ کی ایک رپورٹ کے مطابق 2023 میں قدرتی آفات کی وجہ سے ایک لاکھ کروڑ روپے سے زیادہ کا نقصان ہوا ہے۔ ایسا مانا جا رہا ہے کہ نقصان کے اعداد و شمار میں آنے والے وقتوں میں خاصا اضافہ ہو سکتا ہے۔ 2024 کے نقصانات کی رپورٹ ابھی تک سامنے نہیں آئی ہے، اور امکان ظاہر کیا جا رہا ہے کہ 2024 میں پہلے کے مقابلے زیادہ نقصان کا سامنا کرنا پڑا ہے۔
اگر ہم گزشتہ دہائی کی بات کریں تو 2013 سے 2022 تک ہندوستان ہر سال تقریباً 8 ارب امریکی ڈالر کا نقصان برداشت کر رہا ہے۔ یہ اعداد و شمار 2003 سے 2012 کی دہائی کے مقابلے میں 125 فیصد سے زائد ہے۔ قدرتی آفات میں ہونے والے نقصانات میں سال بہ سال اضافے ایک طرح سے لوگوں کو آگاہ کرنے کے لیے بھی ہیں۔ ساتھ ہی قدرتی آفات کے نتائج بھی کافی ڈراؤنے اور قابل غور و فکر ہیں۔ سوئیس ری کی رپورٹ کے مطابق گزشتہ 2 دہائی میں ہندوستان کو قدرتی آفات کی وجہ سے سالانہ طور پر جتنے نقصانات کا سامنا کرنا پڑا ہے، اس کا تقریباً 63 فیصد سیلاب سے متعلق ہے۔ سیلاب سے نقصان ہونے کی اصل وجہ آب و ہوا اور جغرافیائی محل وقوع ہے۔
ہندوستان میں موسم گرما کا مانسون (جون سے ستمبر) اور شمال مشرقی مانسون (اکتوبر سے دسمبر) شدید بارش لاتے ہیں جس کی وجہ سے سیلاب کی خطرناک صورت حال پیدا ہو جاتی ہے۔ اگر کچھ بڑے حادثات کی بات کی جائے تو ان میں 2005 میں ممبئی، 2013 میں اتراکھنڈ، 2014 میں جموں و کشمیر، 2015 میں چنئی اور 2018 میں کیرالہ کا سیلاب شامل ہے۔ حالانکہ 2023 میں شمالی ہندوستان کے سیلاب نے بھی ایک ارب ڈالر سے زیادہ کا نقصان پہنچایا ہے۔
رپورٹ کے مطابق قدرتی آفات سے ہونے والے نقصانات میں اضافے کی کئی اہم وجوہات ہیں۔ ان میں موسمیاتی تبدیلی سر فہرست ہے۔ درجہ حرارت میں اضافہ سے پیدا طوفان، سیلاب اور خشک سالی جیسے واقعات کی شدت اور تعداد میں خاصا اضافہ ہوا ہے۔ اس کے علاوہ حساس علاقوں میں بڑھتی ہوئی تعمیرات اور آبادی قدرتی آفات کے دوران زیادہ نقصان کے باعث بنتے ہیں۔ رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ زراعت، جس میں ہندوستان کی بڑی آبادی کام کرتی ہے، ان کو اکثر سیلاب، خشک سالی اور طوفانوں کی وجہ سے سب سے زیادہ خمیازہ بھگتنا پڑتا ہے۔ فصلیں خراب ہو جاتی ہیں جس کی وجہ سے دیہی معیشت اور غذائی تحفظ کافی متاثر ہوتا ہے۔ سڑکوں، پُلوں اور عوامی سہولیات جیسے بنیادی ڈھانچوں کو بھی قدرتی آفات سے کافی نقصان ہوتا ہے۔ ان نقصانات سے نہ صرف معاشی سرگرمیاں متاثر ہوتی ہیں بلکہ لوگوں کی زندگیاں بھی متاثر ہوتی ہیں۔
ہندوستان کے کچھ ایسے علاقے ہیں جو قدرتی آفات سے بہت زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔ ساحلی ریاستیں جیسے اڈیشہ، آندھرا پردیش اور مغربی بنگال اکثر سمندری طوفانوں کی زد میں رہتے ہیں۔ بہار اور اتر پردیش جیسی ریاستیں ہر سال سیلاب سے متاثر ہوتی ہیں۔ راجستھان اور گجرات کو ہمیشہ خشک سالی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ہماچل پردیش اور اتراکھنڈ جیسے ہمالیائی علاقوں میں ہمیشہ زلزلہ اور لینڈ سلائیڈ کا خطرہ منڈلاتا رہتا ہے۔ اگر ممبئی، چنئی اور دہلی جیسے بڑے شہروں کی بات کی جائے تو سیلاب اور آبی جماؤ کا ہمیشہ خطرہ لاحق رہتا ہے۔ رپورٹ میں جانکاری دی گئی ہے کہ زلزلے سے متعلق خطرات کے لحاظ سے دہلی اور احمد آباد زیادہ جوکھم والے ہیں۔ ساتھ ہی رپورٹ میں خبردار کیا گیا ہے کہ ہمالیہ کے قریب ایک بڑا زلزلہ آ سکتا ہے جس کا اثر دہلی تک محسوس کیا جا سکتا ہے، یا پھر ممبئی اور دہلی جیسے بڑے شہروں کے پاس چھوٹا زلزلہ بھی آ سکتا ہے۔ ان دونوں صورتوں میں ہونے والے نقصانات 2001 میں گجرات کے بھج میں آئے زلزلے سے زیادہ ہو سکتے ہیں۔ علاوہ ازیں انشورنس کمپنی ’سوئیس ری‘ نے یہ بھی کہا ہے کہ ہندوستان میں بہت سارے افراد اور کنبے ایسے ہیں جن کا بیمہ نہیں ہوا ہے، جس کی وجہ سے قدرتی آفت کے وقت انہیں بہت زیادہ مالی دباؤ کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
قابل ذکر ہے کہ سوئیس ری کی رپورٹ کے مطابق 2005 کے ممبئی اور 2015 کے چنئی سیلاب نقصان کے اعتبار سے ہندوستان کی سب سے مہنگی قدرتی آفات میں شامل ہیں۔ 2005 میں ممبئی سیلاب کی وجہ سے 5.3 ارب ڈالر اور 2015 میں چنئی سیلاب کی وجہ سے 6.6 ارب ڈالر کا نقصان ہوا۔ رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ان واقعات سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ بہتر منصوبہ بندی اور ڈیزاسٹر مینجمنٹ کی سخت ضرورت ہے۔ موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث مستقبل میں قدرتی آفات کی شدت میں مزید اضافے کا خدشہ ہے۔ ہندوستان کو قدرتی آفات سے نمٹنے کے لیے ڈیزاسٹر مینجمنٹ کو کافی بہتر کرنا ہوگا اور ایسے انفراسٹرکچر تیار کرنے ہوں گے جو قدرتی آفات کا سامنا کر سکیں۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔