طے شدہ قانون سے برعکس موقف رکھنے پر مرکزی حکومت کو پھٹکار لگاتے ہوئے سپریم کورٹ نے کہا کہ ’’ہم مرکز کی جانب سے قانون کے برعکس موقف پیش کرنے کے عمل کو کسی بھی قیمت پر برداشت نہیں کریں گے۔‘‘
سپریم کورٹ آف انڈیا / آئی اے این ایس
سپریم کورٹ نے بدھ (15 جنوری) کو منی لانڈرنگ کے ایک معاملے میں سماعت کرتے ہوئے مرکزی حکومت پر خاصا ناراضگی ظاہر کی ہے۔ طے شدہ قانون سے برعکس موقف رکھنے پر مرکزی حکومت کو پھٹکار لگاتے ہوئے سپریم کورٹ نے کہا کہ ’’ہم مرکز کی جانب سے قانون کے برعکس موقف پیش کرنے کے عمل کو کسی بھی قیمت پر برداشت نہیں کریں گے۔‘‘ واضح ہو کہ سپریم کورٹ نے مذکورہ بالا تبصرہ پی ایم ایل اے کے تحت ایک خاتون ملزمہ کی ضمانت عرضی پر سماعت کے دوران کیا۔
عرضی میں ای ڈی نے پی ایم ایل اے میں ضمانت کی سخت شرائط سے خواتین کو چھوٹ دیے جانے کے باوجود مخالفت ظاہر کی تھی۔ جسٹس اے ایس اوکا نے کہا کہ وہ ضمانت کی حقدار ہیں، اس کی ضمانت پر کیوں اعتراض کیا گیا؟ جواب میں سالیسٹر جنرل تشار مہتا نے عدالت سے کہا کہ ’’بالکل وہ ضمانت کی حقدار ہیں۔ براہ کرم ہمیں جواب داخل کرنے کی اجازت دیں۔ مِس کمیونکیشن کی وجہ سے کچھ کنفیوژن ہو گیا تھا۔‘‘
جسٹس اوکا نے اس معاملے میں اپنا رد عمل ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ ہم قبول کرتے ہیں کہ ہم مکمل قانون نہیں جانتے ہیں، لیکن کبھی کبھی ہم قانون کی کچھ دفعات کو جانتے ہیں۔ اگر عدالت کے سامنے پیش ہونے والے وکیل اس بنیاد پر آگے بڑھیں گے تو کیسے چلے گا؟ اس طرح کی دلیل کو کیا مانا جائے؟ ساتھ ہی عدالت نے کہا کہ اس طرح کی دلیلیں نہیں سنی جائیں گی۔ عدالت کی سخت تنقید کے بعد اے ایس جی مہتا نے کہا کہ ’’یہ ارادہ نہیں تھا، لیکن میں آپ سے گزارش کرتا ہوں کہ براہ کرم مواد دیکھیں۔ خواتین کو سی آر پی سی کے ساتھ ساتھ پی ایم ایل اے کے تحت خصوصی علاج ملتا ہے، لیکن یہاں خواتین خود ہی سرغنہ ہے۔ یہی میں دکھانے کی کوشش کر رہا ہوں۔ ہمیں جمعہ تک کا وقت دیں تب تک ہم تفصیلی رپورٹ آپ کے سامنے پیش کریں گے۔‘‘ قابل ذکر ہے کہ سپریم کورٹ نے خاتون کی عرضی سماعت کے لیے منظور کر لی ہے۔ ساتھ ہی سپریم کورٹ نے اے ایس جی کو جواب داخل کرنے کا وقت بھی دیا ہے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔