استاذ: تاریک راہوں کا روشن چراغ ہے
استاد اس خاکدانِ گیتی کا وہ عظیم رہنما ہے جس کے نشان زندگی سے نسل انسانی کی تاریک راہیں تابندہ و درخشاں ہوتی ہیں۔ وہ حیات انسانی میں روشن چراغ کا کام کرتا ہے۔ گم گشتگان راہ حق کو اپنی رہنمائی اور رہبری سے ساحل نجات پر لگادیتا ہے۔ ایک سادہ لوح پر جو علم وہنر سے عاری ہے وہ اپنی انتھک کاوشوں سے علم کی انمٹ نقوش رقم کردیتا ہے۔ استاد کی شریعت مطہرہ میں وہی حیثیت ومقام ہے جو ایک باپ وپدر کا ہے۔ سردست سرکار کی حدیث مبارک بھی سن لیجئے آقائے دوجہاں ﷺ فرماتے ہیں کہ دنیا میں تمہارے تین باپ ہیں ایک وہ جو تمہاری پیدائش کا باعث ہوا۔ دوسرا وہ جس نے اپنی بیٹی کی شادی تمہارے ساتھ کردی اور تیسرا وہ جس سے تم نے علم حاصل کیا اور ان میں بہترین باپ تمہارا استاد ہے(کتاب السنہ) اس حدیث ضعیف سے بحسن وخوبی اندازہ ہوگیا ہوگا کہ شریعت مطہرہ میں استاد کا مقام کیا ہے۔ صوفیہ نے استاذ کو روحانی باپ قرار دیا ہے۔ اسی وجہ سے ہر طالب علم پر دینی فریضہ ہے کہ وہ اپنے معلم اور استاذ کی قدر کریں اور اس کے تمام حقوق بجا لائیں۔ استاذ علم کا سرچشمہ اور اولین منبع ومصدر ہے۔ اس کو علم کا ذریعہ بھی قرار دیا جاتا ہے۔ انہیں وجوہات کی بناء پر استاذ کا مقام اتنا بلند وبالا ہے۔ مولائے کائنات شیر خدا سیدنا علی کرم اللہ وجہہ کا فرمان عالی شان ہے کہ جس نے مجھے ایک حرف بھی پڑھایا۔ میں اس کا غلام ہوں خواہ وہ مجھے آزاد کر دے یا بیچ دے۔(تعلیم المتعلم ۔21) یہ کہنے والا کوئی عام عالم نہیں بلکہ وہ عظیم وجلیل القدر صحابی رسول ﷺ جن کے بارے میں آقائے دوجہاں ﷺ فرمایا کرتے تھے۔ میں علم کا شہر ہوں،اور علی اس کا دروازہ ہے۔
انہیں عظمتوں کی وجہ سے اسلاف اپنے اساتذہ اور مشایخ کا دل سے احترام کرتے اور حتی الوسع ان کی خدمات بجا لاتے۔ اپنی تمام تر بلندیاں اور رفعتیں ان کی مرہونِ منت سمجھتے تھے۔ ان کی بارگاہ میں اپنے آپ کو غلامانہ تصور سے شادکام ہوا کرتے تھے۔ انہیں احساسات کی وجہ سے وہ دنیا میں سربلند اور آخرت میں بھی سرخرو رہے۔اب آئیے تاریخ کی صفحات کی ورق گردانی کرتے ہیں اور تاریخ کے جھروکوں سے جھانک کر دیکھتے ہیں کہ اساتذہ کے تئیں اسلاف کا رویہ کیا تھا۔ ان تاریخی واقعات کو آپ کے سامنے پیش کرنے کا مقصد صرف یہ ہے کہ نئی نسل معلم یا استاد کے مقام کو سمجھیں اور ہمیشہ ان کے زیر سایہ زندگی گزارنے کو نعمت غیر مترقبہ سمجھیں۔ اللہ تعالی ہمارے سینے کو شرح صدر فرمائے۔
تو دل تھام کر سنئے کہ حضرت مغیرہؓ کہتے ہیں کہ ہم استاد سے اتناڈرتے اور ان کا اتنا ادب کرتے تھے جیسا کہ لوگ بادشاہ سے ڈرا کرتے ہیں ۔حضرت یحییٰ بن معین ؒ بہت بڑے محدث تھے امام بخاریؒ ان کے متعلق فرماتے ہیں کہ محدثین کا جتنا احترا م وہ کرتے تھے اتنا کرتے ہوئے میں نے کسی کو نہیں دیکھا۔ امام ابو یوسف ؒکہتے ہیں کہ میں نے بزرگوں سے سنا ہے کہ جو استاد کی قدر نہیں کرتا وہ کامیاب نہیں ہوتا۔(تعلیم المتعلم 22) امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ امام مالک رحمہ اللہ مجلس درس بڑی باوقار ہوا کرتی تھی.تمام طلبہ ادب سے بیٹھتے تھے.حتی کہ ہم لوگ اپنی کتابوں کا ورق بھی آہستہ الٹتے تاکہ کھڑکھڑاہٹ کی آواز بلند نہ ہو.(آداب العلم والعلماء)
زید بن ثابت رضی اللہ عنہ نے ایک جنازے پر نماز پڑھی.پھر آپکی سواری کے لئے خچر لایا گیا تو سیدنا عبداللہ بن عباس آگے بڑھ کر رکاب تھام لی.تو اس پر زید بن ثابت نے کہا اے ابن عم رسول اللہ! آپ ہٹ جائیں.اس پر ابن عباس نے جواب دیا کہ علمائے دین اور اکابر کی عزت اسی طرح کرنی چاہئے.حضرت زید رضی اللہ عنہ نے ان کے ہاتھ کا بوسہ لیتے اور فرماتے ہیں کہ ہمیں بھی یہی حکم دیا گیا ہے کہ ہم اپنے نبی ﷺ کے اہل بیت اطہار کے ساتھ یہی معاملہ کریں۔ (کنز العمال)
ہارون رشید کے دربار میں جب کوئی عالم دین تشریف لاتے تو ہارون رشید ان کے استقبال کے لئے کھڑے ہوجاتے .اس پر انکے درباریوں نے ان سے کہا اے بادشاہ سلامت! اس طرح سلطنت کا رعب و دبدبہ جاتا رہتا ہے۔ تو ہارون رشید نے جو جواب دیا یقیناًوہ آب زر سے لکھنے کے لائق ہے.آپ نے کہا اگر علماء دین کی تعظیم سے رعب سلطنت جاتا ہے تو جائے.ہمیں اس کی پرواہ نہیں۔(آداب المتعلمین) خلف احمر مشہور امام لغت گزرے ہیں ، امام احمد ؒ ان کے تلامذہ میں ہیں ؛ لیکن علومِ اسلامی میں مہارت اور زہد و تقوی کی وجہ سے امام صاحب کو اپنے استاذ سے بھی زیادہ عزت ملی ، اس کے باوجود امام احمدؒ کبھی ان کے برابر بیٹھنے کو تیار نہیں ہوتے اور کہتے کہ آپ کے سامنے بیٹھوں گا ؛ کیوںکہ ہمیں اپنے اساتذہ کے ساتھ تواضع اختیار کرنے کا حکم ہے ، (تذکرۃ السامع والمتکلم) امام فخرالدین ارسا بندی رحمۃ اللہ علیہ مَرْو شہر میں رئیسُ الائمہ کے مقام پر فائز تھے اورسلطانِ وقت آپ کا بے حد ادب واحترام کیا کرتاتھا۔ آپ فرمایا کرتے تھے کہ مجھے یہ منصب اپنے استاد کی خدمت و ادب کرنے کی وجہ سے ملا ہے۔(تعلیم المتعلم)
اب آئیے اپنے اس عظیم محسن کی تابناک زندگی سے بھی کچھ خوشہ چینی کرتے ہیں یعنی امام اعظم امام ابو حنیفہ نعمان بن ثابت رضی اللہ عنہ کے متعلق مورخین رقم طراز ہیں کہ امام ابوحنیفہ ؒاپنے استاذ حماد ؒکے مکان کی طرف پاؤں کرنے میں بھی لحاظ ہوتا تھا ، امام صاحب ؒ خود اپنے صاحب زادہ کا نام اپنے استاذ کے نام پر رکھا ، (تبییض الصحیفۃ)
قاضی ابویوسفؒ کو اپنے استاذ امام ابوحنیفہؒ سے ایسا تعلق تھا کہ جس روز بیٹے کا انتقال ہوا اس روز بھی اپنے استاذ کی مجلس میں حاضری سے محرومی کو گوارا نہیں فرمایا ۔(حسن التقاضی فی سیرۃ ابی یوسف القاضی)
ایسے اسلاف کی تاریخ میں اساتذہ کی عظمت شان پر دلالت کرنے والے بے شمار واقعات ملیں گے۔ علمائے سلف کے یہ واقعات محض لذت کام و دہن کے لیے نہیں ذکر کیے گئے۔ بلکہ اس لیے ذکر کیے گئے ہیں کہ علم کی جو چراغ ان کے دلوں میں جل رہا تھا ہمارے دلوں میں بھی جلے۔ علم، صاحبِ علم اور آلۂ علم کا ادب و احترام اور پاس و لحاظ جو انہیں حاصل تھا اس کا کچھ ذرہ ہم کم ہمتوں اور کوتاہ نصیبوں کو بھی نصیب ہو۔عظمت و رفعت کی جن بلندیوں پر ہمارے اسلاف فائز تھے وہ مقام بلند ہمیں بھی عطا ہو۔ اور یہ مقام بلند بغیر ان کی اتباع نقش کف پا کے ہمیں مل نہیں سکتا۔ اس موقع پر سرکار دو عالم ﷺ کی حدیث مبارک یاد آرہی ہے سرکار ﷺ فرماتے ہیں ’ اس امت کے آخری حصے کی اصلاح بھی بس اسی چیز سے ہوسکتی ہے جس سے اس کے پہلے حصہ کی اصلاح ہوئی۔(الریاض النضرۃ)
آخر میں ہم ان کتابوں کا بھی ذکر کرکے مضمون کو ختم کرنا چاہتے ہیں جن میں علم، معلم اور آلات علم کی عظمت بیان کی گئی ہیں۔ یہ اس لیے کہ کوئی اہل ذوق اگر مزید اس موضوع پر تحقیق کرنا چاہیں تو بآسانی اسے مواد دستیاب ہوجائیں۔ تو سنئے اس موضوع پر جامع کتاب حافظ علامہ بدر الدین بن جماعہ کی ہے جس کا نام کچھ یوں ہے تذكرة السامع والمتكلم في آداب العالم والمتعلم۔ پھر مشہور مؤرخ علامہ خطیب بغدادی کی الكفاية في علم الرواية ، علامہ حافظ ابن عبد البر المالکی کی جامع بيان العلم وفضله اور پھر بہت ہی مشہور ومعروف کتاب تعلیم المتعلم فی طریق التعلم صاحب ہدایہ کے استاذ گرامی قدر حافظ علامہ برہان الدین الزرنوجی الحنفی کی کتاب اس موضوع پر بڑی جامع ہے۔ لہذا جو بھی صاحب علم اپنی علمی تشنگی بجھانا چاہتا ہے وہ ان کتابوں کی طرف رجوع کریں اور اس بڑھ کر یہ کہ اپنے اساتذہ اور معلمین کا بھرپور احترام وتعظیم بجالائیں۔ اللہ تعالی سے دعا گو ہوں کہ مولی ہمیں ہمیشہ اپنے اساتذہ کا قدردان بنائے اور زندگی بھر ان کے سائے عاطفت میں زندگی بسر کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہمارے جملہ اساتذہ کو عمر خضر عطا فرمائے جو اس دار فانی سے کوچ کر گئے انہیں کروٹ کروٹ جنت نصیب فرمائے آمین