ووٹ ڈالیے، بدلاؤ لائیے، کسی کے بہکاوے میں مت آئیے
اسمبلی انتخابات کا بگل بجتے ہی ہر سیاسی پارٹی کے لیڈران عوام کے بیچ بارش کے مینڈک کی طرح اتر گئے ہیں۔ زور دار وشعلہ بار تقریریں، مگرمچھ کے آنسو، چھوٹے وعدے اور پتہ نہیں کیا کیا سننے میں آرہا ہے۔ ملک کی سب سے قدیم اور بڑی سیاسی پارٹی کانگریس نے اپنا انتخابی منشور جاری کردیا ہے۔ جسے “نیائے پتر” کے نام سے جاری کیا گیا ہے۔ انتخابات میں اکثر یہ دیکھا گیا ہے کہ انتخابی منشور نہیں، لہر کام کرتی ہے، نعرہ چلتا ہے اور سیاسی بیانیہ اثر دکھاتا ہے جو عوام کے دلوں میں اُتر جائے۔ اور یہ ناقابل تردید حقیقت ہے کہ انتخابات کے لیے انتخابی منشور ہی سب کچھ ہوتا ہے اور ہونا بھی چاہیے۔ نہ تو ریلیاں درکار ہوں نہ ہی بیان بازی، نہ تو لعن طعن ہو نہ ہی الزام تراشی اور کردار کشی کا سہارا لیا جائے۔ لیکن ایسا ہوتا نہیں ہے۔ عوام اور ملک کے رائے دہندگان کو چاہیے کہ انتخابات کے وقت پہلے انتخابی منشور کا بنظر غائر مطالعہ کریں۔ اور ہر سیاسی پارٹی کا تقابلی جائزہ لیں کہ کون سی سیاسی پارٹی نے اپنے منشور کے مطابق کام کیا۔ کس نے اپنے وعدے نبھائے۔ کس نے نوجوانوں کو روزگار فراہم کیے۔ کس نے ملک کے اقتصادی حالات کو بہتر بنائے۔
دس سال پہلے ہم نے انتخابات کے وقت یہ نعرہ سنا تھا بی جے پی آئے گی اچھے دن لائے گی۔ پھر جب مودی جی حکومت کی کرسی پر براجمان ہوئے تو انہوں نے بھی عوام کو کئی نعرے دیے تھے۔ ان میں چند یہ ہیں۔ اچھے دن آئیں گے، نوٹ بندی کا مقصد کالا دھن کا خاتمہ، سب کا ساتھ سب کا وکاس، ہر ایک کے اکاؤنٹ میں پندرہ لاکھ، ہر گھر بجلی مفت، ہر غریب کو گھر، ہر نوجوان کو روزگار وغیرہ وغیرہ ۔ ان نعروں کا تذکرہ اس لیے نہیں تھا کہ بی جے پی پر تنقید کیا جائیں۔ بلکہ مقصد وہی ہے جو ہم نے اوپر کہا تھا کہ آیا ان دس سالوں میں برسر اقتدار پارٹی نے جو وعدے کیے وہ پورے ہوئے یا نہیں۔ نوجوانوں کو روزگار ملے یا نہیں۔ گھر گھر بجلی پہنچی یا نہیں۔ مہنگائی میں اضافہ ہوا یا کمی۔ ان سب کا حساب کرنے کا بہترین وقت ہے۔ ہم اپنا بھی محاسبہ کریں اور ملک کے موجودہ صورتحال کا بھی جائزہ لیں کہ ان دس سالوں میں ملک کا نقشہ بدلا یا بگڑا۔ اگر حقیقت بیانی سے کام لیا جائیں تو ہم یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ ان دس سالوں میں وکاس ہوا یا نہیں معلوم نہیں بلکہ مذہبی فرقہ واریت کا فروغ ہوا۔ مذہبی دہشت گردی دھڑلے سے بڑھنے لگی۔ گئو رکشا کے نام پر سر عام انسان کشی عام ہوئی۔ مندر کے تحفظ کے نام پر مساجد پر کھلے عام حملے ہوئے۔ بھگوان رام کے نام پر سیاسی کھیل کھیلا گیا۔ ان موجودہ صورتحال کے پیش نظر ہم نے اپنے مضمون کو یہ عنوان باندھا کہ ووٹ ڈالیے، بدلاؤ لائیے، کسی کے بہکاوے میں مت آئیے۔
ہم بہت دھوکہ کھاچکے ہیں، اب چوکس رہنے کی ضرورت ہے۔ خود بھی جاگیے اور دوسروں کو بھی جگائیے اگر اس بار خواب خرگوش میں سو گئے تو پھر زندگی بھر اس غفلت کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔ اس بار کا اسمبلی الیکشن جہاں جمہوریت اور ملک کے سالمیت کے لیے ضروری ہے۔ اس سے کہیں آپ کے وجود پر جو فرقہ واریت کی تلوار لٹکی ہوئی ہے اسے ٹالنے اور ہٹانے کے لیے بے حد ضروری ہے۔ حقیقی سیاست دانوں کو پہچانیے اور ووٹ کو رائیگاں مت ہونے دیجیے۔ سیاست کا صحیح مطلب خدمت خلق ہے۔ سیاست کو عوامی خدمت سے عبارت ہونا چاہیے مگر وہ اپنی خدمت (اپنا مفاد اور اقتدار) سے جڑ گئی ہے۔ اتنی خرابیاں اسی لیے آ رہی ہیں کہ سیاست داں خود غرض اور مفاد پرست ہوچکے ہیں نہ انہیں ملک کی جمہوریت کی فکر نہ انہیں عوام کی ضرورتوں کا خیال۔ مہنگائی آسمان سے ہمکلام ہے۔ بےروزگاری سے نوجوان پریشان ہے۔ ملک فرقہ وارانہ تشدد سے دوچار ہے۔ ان روح فرسا حالات میں ہمیں چاہیے کہ جمہوریت ، آئین ہند اور قومی یکجہتی کو برقرار رکھنے والوں کو ووٹ دے کر حکومت کی باگ دوڑ سپرد کریں۔
فرقہ واریت، مندر مسجد اور ہندو مسلم کی سیاست کو ختم کرنے کی ضرورت ہے۔ اور ہر علاقے میں محبت کی دکان کھولنے والے قائدین کی ضرورت ہے۔ نفرت کا خاتمہ ہو اور محبت، قومی ہم آہنگی، بھائی چارہ اور جمہوریت کی حفاظت کرنے والوں کو ووٹ دیں۔ عوام کے ایشوز پر بات کرنے والوں کو ووٹ دیں۔ ضرور بدلاؤ لانا ہے۔ ورنہ پھر آپ کا وجود بھی باقی رہنا مشکل ہے۔ چھوٹے سیاست دانوں کی چھوٹی تقریروں پر کان نہ دھریں۔ مودی جی نے ملک سے غربت ختم کرتے کرتے ملک کو غربت وافلاس کی اتاہ گہرائیوں میں دھکیل دیا ہے۔ اچھے دن تو آئے نہیں بلکہ برے دن چل رہے ہیں۔ یہ بات ذہن نشین کر لیجیے کہ اس بار نہیں تو پھر کبھی نہیں۔ لہذا جملہ قارئین اور ملک کے تمام باشندوں سے ہماری مخلصانہ اپیل ہے کہ اس بار الیکشن سے پہلے آپ ہر سیاسی پارٹی کے منشور کا بغور تجرباتی مطالعہ کریں اور ملک کی سالمیت اور جمہوریت کے پاسبانوں کو ووٹ دیں۔ عوام کے ایشوز پر بات کرنے والوں کو ووٹ دیں۔ ووٹ کا معیار پارٹی کا منشور ہونا چاہیے۔ جو احباب روزگار کی تلاش میں اپنی ریاستوں سے باہر رہتے ہیں ان سے ہماری اپیل ہے کہ الیکشن سے پہلے اپنے اپنے علاقے میں پہنچ کر ووٹ لسٹ جانچیں اور اگر اپنا نام غائب ہے تو ذمہ داروں سے رابطہ کرکے اپنے نام کا اندراج کرائیں اور ایک ووٹ بھی ضائع نہ کریں۔ ووٹ ڈالیے، بدلاؤ لائیے، ملک کی جمہوریت اور قومی یکجہتی کو، برقرار رکھیے۔ خدا ہمارے ملک کی حفاظت فرمائے۔ آمین