اسلام آباد: ہائی کورٹ نے شہباز گِل کے لاپتا بھائی کو 6 اگست تک بازیاب کروا کر عدالت میں پیش کرنے کا حکم دے دیا۔
جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب کے روبرو ڈاکٹر شہباز گِل کے لاپتا بھائی غلام شبیر کی بازیابی کی درخواست پر سماعت ہوئی، جس میں اسلام آباد ہائی کورٹ نے آج کا عدالتی آرڈر وزیراعظم شہباز شریف کے سامنے رکھنے کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ شہباز گِل کے مغوی بھائی کو 6 اگست تک بازیاب کروا کر عدالت میں پیش کیا جائے۔ عدالت نے ہدایت کی کہ ہائی کورٹ کا رجسٹرار آفس عدالتی آرڈر وزیراعظم کے پرنسپل سیکرٹری تک پہنچانا یقینی بنائے۔
جسٹس حسن اورنگزیب نے دوران سماعت ریمارکس دیے کہ ادارے جب کہہ دیتے ہیں کہ ہمیں نہیں پتا یہ سب سے خطرناک صورتحال ہوتی ہے۔ ریاست کہتی ہے کہ ہمیں نہیں پتا بندہ کہاں ہے لیکن ہم کچھ کریں گے بھی نہیں۔
درخواست گزار کے وکیل نے کہا کہ شہباز گِل بانی چیئرمین پی ٹی آئی کی حمایت میں وی لاگز کرتا ہے۔شہباز گِل نے بتایا ہے کہ ایجنسیوں نے انہیں کہا کہ تمہارا بھائی ہمارے پاس ہے۔ شہباز گِل کو کہا گیا کہ بانی پی ٹی آئی کی حمایت میں وی لاگز کرنا چھوڑ دو۔
جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کہا کہ وزارتِ دفاع کی ہمت ہے کہ وہ ان معاملات میں جائے؟ اب اگر ہم سخت آرڈر کریں تو ہم ججز کے خلاف کارروائی شروع ہو جاتی ہے۔ عبدالرحمٰن میرے پاس چیمبر میں آنا میں اپنی ڈگری آپ کو دکھا دوں گا، اصل ہے۔ آ جانا میں خود آپ کو دکھا دوں گا، آپ کو ڈھونڈنے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔پرانی ہائیکورٹ کی عمارت میں میری ڈگری دیوار پر لگی ہوئی تھی۔
عدالت نے کہا کہ 10 دن پہلے درخواست دائر ہوئی، حکومت نے اب تک کیا کیا ہے؟ آج میں جو آرڈر کروں گا وہ وزیراعظم کے سامنے رکھا جائے، آئی جی کو کہنا تو بےفائدہ ہے، وزیر بھی کیا کر سکتے ہیں۔ یہ ملک کا نام بدنام کر رہے ہیں۔
وکیل نے کہا کہ اس عدالت نے گزشتہ سماعت پر مغوی کو پیش کرنے کا حکم دیا تھا۔ا س موقع پر اسٹیٹ کونسل عبدالرحمٰن نے کہا کہ اداروں کی رپورٹس کے مطابق مغوی اُن کی حراست میں نہیں۔ ڈپٹی اٹارنی جنرل نے کہا کہ آئی ایس آئی نے رپورٹ دی ہے کہ مغوی اُن کے پاس نہیں، ایم آئی نے وقت مانگا ہے۔
جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کہا کہ پہلے بندہ اٹھانے کے لیے ایس ایچ او کو کہا جاتا تھا۔ اب حکومت پاکستان خود پالیسی کے مطابق یہ کرتی ہے۔ اسٹیٹ کونسل صاحب آپ اس عدالت کے جذبات کس کو بتائیں گے؟ ۔
اسٹیٹ کونسل عبدالرحمٰن نے کہا کہ میں چیف کمشنر اور آئی جی اسلام آباد کو خود بتاؤں گا، جس پر عدالت نے کہا کہ وہ کیا کر لیں گے؟ پھر ہم نے تو ان کے ہی خلاف آرڈر کرنے ہیں۔ ان کو ہماری باتوں سے کوئی فرق نہیں پڑنا، اتنی موٹی کھال ہے۔ عدالتیں اب کیا کر سکتی ہیں؟۔
جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کہا کہ عدالتی کارروائی سے متعلق سیکرٹری داخلہ کو بھی آگاہ کیا جائے۔ عدالت نے وزارت داخلہ کے نمائندے سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ خرم آغا کو کہیں کہ اس کیس کو سنجیدگی سے دیکھیں۔ بندہ تو گارنٹی دے کر باہر نکل آئے گا لیکن آپ ملک کے ساتھ کیا کر رہے ہیں؟ اور اگر میرے اثاثوں کی تفصیلات چاہییں تو میں وہ بھی دے دوں گا۔
بعد ازاں عدالت نے کیس کی سماعت 6 اگست تک ملتوی کر دی۔