کانگریس نے اس بار جس طرح اپنے امیدواروں کا انتخاب کیا ہے اس سے صاف اشارہ دیا ہے کہ پارٹی اس الیکشن میں پورا دم خم لگانے جا رہی ہے
مرکز کے زیر انتظام خطہ دہلی میں اسمبلی انتخابات کی تاریخوں کے اعلان سے پہلے ہی مقابلے کی شروعات ہو چکی ہے۔ عام آدمی پارٹی (اے اے پی) اور کانگریس کے بعد اب بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) نے بھی 29 سیٹوں پر اپنے امیدواروں کا اعلان کر دیا ہے۔ بی جے پی کی پہلی لسٹ کے بعد کئی سیٹوں پر تینوں ہی پارٹیوں کے سیاسی جنگجو آمنے سامنے آ گئے ہیں۔ اے اے پی کے سربراہ اروند کیجریوال، ان کے معتمد خاص منیش سسودیا اور وزیراعلیٰ آتشی کے خلاف مقابلے کی تصویر صاف ہو گئی ہے۔ جیت کا سہرہ کس کے سر بندھے گا، یہ انتخابات کے بعد پتا چلے گا لیکن دہلی کی ان تین ہاٹ سیٹوں پر جنگ کافی دلچسپ ہونے جا رہی ہے۔ سیاسی پنڈتوں نے بھی اپنی پوری توجہ ان تینوں سیٹوں پر مرکوز کر دی ہے اور اپنے اپنے حساب سے اندازے لگائے جا رہے ہیں۔
نئی دہلی سیٹ سے چوتھی بار اترے کیجریوال کا مقابلہ دو سابق وزرائے اعلیٰ کے بیٹوں سے ہونے جا رہا ہے۔ کانگریس نے شیلا دکشت کے بیٹے سندیپ دکشت کو ٹکٹ دیا ہے تو بی جے پی نے امید کے مطابق پرویش ورما کو اتارا ہے جو یہاں ’لاڈلی اسکیم‘ کے ذریعہ ہلچل پیدا کر چکے ہیں۔ وہ صاحب سنگھ ورما کے بیٹے ہیں۔ وہیں سندیپ دکشت نے اپنی والدہ شیلا دکشت کی مقبولیت اور ہمدردی کے سہارے کیجریوال کی مشکلیں بڑھا دی ہیں۔ کیجریوال خواہ اس سیٹ سے شیلا دکشت کو ہرا چکے ہیں لیکن وہ وقت دوسرا تھا اور یہ وقت دوسرا ہے۔ تب سے اب تک یمنا میں کافی پانی بہہ چکا ہے اور حالات بھی بدل چکے ہیں۔ بدعنوانی مخالف تحریک کی کوکھ سے نکلے کیجریوال نے تب شیلا دکشت پر بدعنوانی کے الزام لگاتے ہوئے انہیں چیلنج دیا تھا اور اب وہ اپنی ایمانداری کا سرٹیفکیٹ مانگنے اترے ہیں۔
2020 میں کیجریوال نے اس سیٹ سے 21697 ووٹوں کے فرق سے جیت حاصل کی تھی لیکن تب ان کے خلاف بی جے پی نے سنیل کمار یادو اور کانگریس نے رومیش سبھروال کو امیدوار بنایا تھا۔ حالانکہ تب دونوں ہی امیدواروں کو نسبتاً کمزور بتایا گیا تھا۔ حالانکہ اس بار کانگریس اور بی جے پی نے جس طرح اپنے دو بڑے چہروں کو نئی دہلی سیٹ سے اتارا ہے اس سے یہ تو طے ہے کہ کیجریوال کو اپنی سیٹ بچانے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگانا ہوگا۔ اسی طرح 2020 میں پٹ پڑ گنج سیٹ پر گرتے پڑتے بڑی مشکل سے جیت حاصل کرنے والے منیش سسودیا کو اس بار جنگ پورا سیٹ سے اتارا گیا ہے۔ پارٹی نے انہیں بے حد محفوظ سیٹ سے امیدوار بنایا تھا مگر کانگریس نے اپنے سینئر لیڈر اور سابق میئر فرہاد سوری کو ٹکٹ دے کر سسودیا کو زبردست ٹکر دینے کا اشارہ دے دیا ہے۔
کانگریس نے فرہاد سوری کو امیدوار بنا کر پہلے ہی سسودیا کے لئے مشکلیں پیدا کر دی تھیں اب بی جے پی نے سابق ایم ایل اے سردار تروندر سنگھ مارواہ کو ٹکٹ دے کر رہی سہی کسر پوری کر دی ہے۔ اس سیٹ پر مسلم اور سکھ ووٹروں کی اچھی تعداد ہے۔ کانگریس اور بی جے پی نے دونوں طبقوں سے امیدوار دے کر سسودیا کی گھیرا بندی کی ہے۔ فرہاد سوری جنگ پورا اور دہلی کی سیاست کا مقبول چہرہ ہیں۔ وہ نظام الدین وارڈ سے لگاتار کونسلر کے الیکشن میں کامیاب ہوتے رہے ہیں۔ وہ دہلی کانگریس کی سینئر رہنما تاجدار بابر کے بیٹے ہیں۔ محترمہ بابر دو بار ایم ایل اے بھی رہی ہیں۔ فرہاد سوری کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ زمینی لیڈر ہیں اور اسی وجہ سے علاقائی عوام انہیں کافی پسند کرتے ہیں۔ بہرحال نتیجہ جو بھی نکلے لیکن اتنا ضرور ہے کہ کانگریس عوام کے رجحان سے مطمئن نظر آ رہی ہے۔
وزیراعلیٰ آتشی کو بھی کالکا جی سیٹ پر گھیرنے کی پوری تیاری کی گئی ہے۔ کانگریس نے دو دن پہلے ہی ان کے خلاف اپنی تیز طرار خاتون لیڈر الکا لامبا کو اتارا تو اب بی جے پی نے یہاں سابق ایم پی رمیش بدھوڑی کو امیدوار بنانے کا اعلان کیا ہے۔ کالکا جی سیٹ سے پچھلی بار الیکشن جیتنے والی آتشی کو اس بار دوسرہ رخی مقابلے کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اگر الکا لامبا یہاں بی جے پی مخالف ووٹوں کو منتشر کرنے میں کامیاب رہیں تو آتشی کے لئے مشکلیں بڑھ سکتی ہیں۔ جہاں ایک طرف بی جے پی دہلی میں قریب تین دہائی پرانی بے دخلی ختم کرنا چاہتی ہے تو کانگریس بھی اپنے گڑھ میں ’کرو یا مرو‘ والا مقابلہ لڑنے کے لئے پوری طرح تیار نظر آ رہی ہے۔ کانگریس نے اس بار جس طرح اپنے امیدواروں کا انتخاب کیا ہے اس سے صاف اشارہ دیا ہے کہ پارٹی اس الیکشن میں پورا دم خم لگانے جا رہی ہے۔
ملک کی دونوں قومی پارٹیوں کانگریس اور بی جے پی نے اے اے پی کے تین سب سے بڑے لیڈروں کے خلاف مضبوط امیدواروں کو اتار کر انہیں گھر میں گھیرنے کی کوشش کی ہے۔ دونوں پارٹیاں چاہتی ہیں کہ کیجریوال، سسودیا اور آتشی کو اپنی ہی سیٹ پر محدود کرنے پر مجبور کیا جائے تاکہ انہیں دوسری سیٹوں پر دھیان دینے کا کم موقع ملے۔ 10 سال کی اقتدار مخالف لہر کا سامنا کر رہی اے اے پی کے لئے یہ دہلی کا سب سے مشکل الیکشن مانا جا رہا ہے۔ اس کی ایک وجہ اور بھی بتائی جا رہی ہے اور وہ کانگریس کی منظم مہم ہے۔ اس الیکشن کے لئے کانگریس کی حکمت عملی سے سیاسی پنڈت بھی حیران ہیں۔ اس لئے کہ گزشتہ دو انتخابات میں صفر پر سمٹنے والی کانگریس میں جس طرح کا جوش اور جنون نظر آ رہا ہے، اس نے دہلی کے الیکشن کو دلچسپ بنا دیا ہے۔
حالانکہ کئی روز سے جاری عام آدمی پارٹی اور بی جے پی کی سیاسی رسہ کشی سے کچھ اور ہی اندازہ لگایا جانے لگا تھا مگر کانگریس نے دونوں پارٹیوں کے سیاسی منصوبوں پر پانی پھیر دیا ہے۔ چند روز قبل تک ایسا لگ رہا تھا کہ عام آدمی پارٹی اور بی جے پی نے ایک دوسرے کے درمیان ہی مقابلہ کو ظاہر کرنے کے لئے کانگریس کو نظر انداز کرنے کا ’خفیہ منصوبہ‘ بنایا ہے۔ جس کے تحت کسی دن عام آدمی پارٹی کی جانب سے تو کسی دن بی جے پی کی جانب سے ایک دوسرے کے خلاف ایسا کچھ کیا جاتا ہے جس کو میڈیا میں کافی تشہیر ملتی ہے۔ انتخابی عمل کے دوران سیاسی سرگرمیوں میں تیزی اور شدت پیدا ہونا معمول کی بات ہے لیکن جس طرح سے ابھی سے ماحول کو گرم کیا جا رہا ہے وہ دونوں ہی جماعتوں کی مشترکہ حکمت عملی کا ہی حصہ نظر آتا ہے۔
اس بار عام آدمی پارٹی کے لئے صورتحال اطمینان بخش نظر نہیں آ رہی ہے۔ خود عام آدمی پارٹی کی صفوں میں بے چینی کی کیفیت پیدا کر دی گئی ہے۔ کچھ رہنما بالواسطہ طور پر بی جے پی کی زبان بولنے لگے ہیں اور پارٹی قیادت کو نشانہ بنا رہے ہیں تو دوسری جانب خود پارٹی قیادت پر مسلمانوں کے تعلق سے لاپرواہی والا رویہ اختیار کرنے کا الزام عائد کیا جا رہا ہے۔ مسلم مسائل پر کیجریوال یا ان کی پارٹی نے کوئی واضح موقف اختیار نہیں کیا تھا۔ خود عام آدمی پارٹی میں شامل مسلم قائدین کو بھی منظم انداز میں حاشیہ پر پہنچانے کا بھی الزام عائد کیا جا رہا ہے۔ اس صورتحال میں دہلی کے رائے دہندگان میں بھی پارٹی کے تعلق سے وہ رائے دکھائی نہیں دے رہی ہے جو پہلے دکھائی دیا کرتی تھی۔ حالانکہ ابھی انتخابات کے لئے کچھ وقت ہے لیکن صورتحال اس بار بہت مختلف دکھائی دے رہی ہے۔
ویسے تو انتخابی عمل کے دوران سیاسی پارٹیوں کی جانب سے ایک دوسرے کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔ الزامات اور جوابی الزامات بھی عام بات ہیں۔ ماحول گرم ہوا کرتا ہے لیکن دہلی میں جو صورتحال پیدا کی جا رہی ہے وہ دوسری ریاستوں سے مختلف کہی جا سکتی ہے۔ اروند کیجریوال وزیراعلیٰ کی ذمہ داری سے سبکدوشی کے بعد انتخابی سرگرمیوں کی کمان سنبھالے ہوئے ہیں اور بی جے پی نے بھی اپنی ساری توجہ دہلی پر مرکوز کرتے ہوئے اپنے منصوبوں کو عملی جامہ پہنانے کا آغاز کر دیا ہے۔ دہلی میں یہ تاثر عام ہوتا جا رہا ہے کہ دونوں پارٹیاں عوام کو گمراہ کرنے کی حکمت عملی پر عمل پیرا ہو گئی ہیں۔ بنیادی مسائل سے عوام کی توجہ ہٹانے کے لئے منظم انداز میں الزامات و جوابی الزامات کا سلسلہ شروع کر دیا گیا ہے۔ دہلی کے عوام کو ساری صورتحال پر خاص نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔