[ad_1]
ٹروڈو کا استعفیٰ لبرل پارٹی کے لیے ایک بڑا چیلنج ہے، جسے اب اکتوبر 2025 کو ہونے والے اگلے وفاقی انتخابات سے قبل قیادت کی تبدیلی سے گزرنا ہوگا۔
جسٹن ٹروڈو نے پیر کو کینیڈا کے وزیر اعظم اور لبرل پارٹی کے رہنما کے عہدے سے مستعفی ہونے کا باضابطہ اعلان کیا۔ تقریباً ایک دہائی تک کینیڈا کی سیاست میں سرفہرست رہنے کے بعد یہ ٹروڈو کے دور کا اختتام ہے۔ پارٹی کے اندر بڑھتی ہوئی بے اطمینانی اور عوامی حمایت میں تیزی سے کمی نے ٹروڈو کو استعفیٰ دینے پر مجبور کر دیا۔ پیر کو ایک بیان میں ٹروڈو نے حالیہ برسوں کی مشکلات کا اعتراف کیا۔
ٹروڈو کینیڈا میں نئے رہنما کے انتخاب تک قائم مقام وزیر اعظم کے طور پر کام کرتے رہیں گے، تاکہ حکومت کا تسلسل برقرار رہے۔ لبرل پارٹی اپنے نئے لیڈر کا انتخاب اندرونی عمل کے ذریعے کرے گی۔ یہ عمل پارٹی قوانین اور وقت کے مطابق ہوگا۔ لبرل پارٹی کے نئے رہنما کو وزیر اعظم مقرر کیا جائے گا، بشرطیکہ پارٹی پارلیمنٹ میں اکثریت برقرار رکھے۔ اطلاعات کے مطابق پارلیمنٹ کی کارروائی 24 مارچ تک ملتوی کی جائے گی، تاکہ نئی قیادت کو ایڈجسٹ ہونے کا وقت مل سکے۔
ٹروڈو کا استعفیٰ لبرل پارٹی کے لیے ایک بڑا چیلنج ہے، جسے اب اکتوبر 2025 میں ہونے والے اگلے وفاقی انتخابات سے قبل قیادت کی تبدیلی سے گزرنا ہوگا۔ ٹروڈو نے کہا کہ انہوں نے اپنی لبرل پارٹی کے ذمہ دارسے کہا ہے کہ وہ نئے لیڈر کے انتخاب کا عمل شروع کریں۔ وہ اگلے قائد کے انتخاب تک قائم مقام وزیر اعظم رہیں گے۔
ٹروڈو کے استعفیٰ کے ساتھ ہی لبرل پارٹی کے اندر قیادت کی نئی دوڑ شروع ہو گئی ہے۔ اقتصادی پالیسی پر اختلافات کے باعث دسمبر میں ٹروڈو کی کابینہ سے مستعفی ہونے والی نائب وزیر اعظم کرسٹیا فری لینڈ ایک ممکنہ دعویدار کے طور پر سامنے آئی ہیں۔ دیگر ناموں میں وزیر برائے انوویشن فرانسوا فلپ شیمپین اور سابق وزیر دفاع انیتا آنند شامل ہیں۔پارٹی کو حزب اختلاف کی کنزرویٹو پارٹی کے بڑھتے ہوئے دباؤ کا بھی سامنا ہے، جس کی قیادت پیئر پوئیلیور کر رہے ہیں، جو اس وقت رائے عامہ میں 20 نکاتی برتری رکھتی ہے۔
جسٹن ٹروڈو کا استعفیٰ ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب ملک کو امریکہ کے ساتھ بڑھتی ہوئی کشیدگی کا سامنا ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کینیڈا کی مصنوعات پر 25 فیصد درآمدی ڈیوٹی لگانے کی دھمکی دی ہے۔ ٹرمپ نے نقل مکانی اور تجارتی عدم توازن کے بارے میں اپنے خدشات کا حوالہ دیتے ہوئے یہ قدم اٹھانے سے خبردار کیا ہے۔ ان دھمکیوں نے کینیڈا کی معیشت میں غیر یقینی صورتحال کو مزید بڑھا دیا ہے جو ٹروڈو کے جانشین کے لیے ایک بڑا چیلنج بن جائے گا۔
ٹروڈو کا تقریباً دس سالہ طویل دور کئی اہم فیصلوں سے بھرا ہوا ہے۔ اس دوران انہوں نے بھانگ کو قانونی حیثیت دینے، کاربن ٹیکس کا نفاذ اور امریکہ کے ساتھ نظر ثانی شدہ تجارتی معاہدے پر دستخط کرنے جیسے بڑے فیصلے لیے۔ تاہم، ان کے آخری سالوں میں، اندرونی اختلاف، معاشی مشکلات اور لبرل پارٹی کی گرتی ہوئی مقبولیت نے ان کے دور کو مشکل بنا دیا۔ ٹروڈو کا استعفیٰ ایک سیاسی کیریئر کے خاتمے کا نشان ہے جو بڑی توقعات کے ساتھ شروع ہوا تھا لیکن ملکی اور بین الاقوامی سطح پر بڑھتے ہوئے بحرانوں کے درمیان ختم ہوا۔
کینیڈا میں وزیر اعظم کا انتخاب پارلیمانی نظام کے تحت ہوتا ہے۔ کینیڈا کا سیاسی ڈھانچہ برطانیہ کے پارلیمانی نظام پر مبنی ہے، جہاں وزیر اعظم کا انتخاب براہ راست عوام کے ذریعہ نہیں ہوتا، بلکہ پارلیمنٹ میں اکثریت والی پارٹی کے ذریعہ ہوتا ہے۔
کینیڈا میں وزیر اعظم بننے کے لیے، کسی شخص کے لیے پارلیمنٹ کے ایوان زیریں کا رکن ہونا لازمی ہے، جسے ہاؤس آف کامنز کہا جاتا ہے، یعنی رکن پارلیمنٹ (ایم پی)۔ ہاؤس آف کامنز میں کل 338 نشستیں ہیں اور ان نشستوں پر مختلف سیاسی جماعتیں اپنے امیدوار کھڑے کرتی ہیں۔
کینیڈا میں ہر سیاسی پارٹی کا لیڈر ہوتا ہے۔ جو بھی پارٹی انتخابات میں سب سے زیادہ نشستیں جیتتی ہے (زیادہ تر معاملات میں 170 یا اس سے زیادہ)، اس پارٹی کا لیڈر خود بخود وزیراعظم بننے کا اہل ہو جاتا ہے۔ کینیڈا میں وزیر اعظم کی مدت کا تعین نہیں ہوتا لیکن وفاقی انتخابات عام طور پر 4 سال بعد ہوتے ہیں۔ وزیر اعظم اس وقت تک عہدے پر رہتے ہیں جب تک وہ پارلیمنٹ میں اکثریت برقرار رکھتے ہیں۔ اگر وزیر اعظم کی حکومت پارلیمنٹ میں اکثریت کھو دیتی ہے تو یا تو اسے استعفیٰ دینا پڑتا ہے یا گورنر جنرل پارلیمنٹ کو تحلیل کر دیتے ہیں اور نئے انتخابات کرائے جاتے ہیں۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
[ad_2]
Source link