نہ نستعلیق حرف اس طرح سے زیبِ رقم ہونگے
اردو ادب کے ایک بہت ہی مشہور شاعر گزرے ہیں جنہیں ہم آج اکبر اؔلہ آبادی کے نام سے جانتے اورپہنچانتے ہیں۔ان کی ایک بہت ہی عمدہ نظم ہے جس کا عنوان”نئی تہذیب“ ہے اس نظم کی خاص بات یہ ہے کہ اکبرؔ صاحب نے اس میں آنے والے ایام کے حالات کا ایک اصلی نقشہ کھینچا تھاجو کہ آج سے ٤٠ یا ۷٠ سال قبل کھینچا گیا تھا اوربا خدا اس نظم کی ایک ایک بات آج کے اس دو ر میں صحیح ثابت ہوتی ہوئی نظر آرہی ہے جس کا کوئی انکار نہیں ہے۔ اسی نظم کا ایک مصرعہ آپ کے حوالے ہے کہ ”نہ نستعلیق حر ف اس طر ح سے زیبِ رقم ہونگے“سب سے پہلے تو یہ جاننا ضروری ہے کہ ”نستعلیق“کیا ہے۔اصل میں جس طرح ہندی کی رسم الخط کو ہم ”دیونگری“کہتے ہیں جس میں مراٹھی اور سنسکرت زبان بھی شامل ہے اسی طرح اردو زبان کی رسم الخط کو نستعلیق کے نام سے جانا جاتا ہے جس میں عربی اور فارسی وغیرہ شامل ہیں۔یہ بات اکبرؔ صاحب نے تب کہی تھی جب ہندوستا ن میں انگریزوں کی آمد ورفت شروع ہوکر ایک دردناک انجام تک پہنچ چکی تھی،اس وقت کہی تھی جب انگریزوں کے تہذیب کو لوگوں نے شیرنی اورنیاز سمجھ کر برکتاَ اپنا بنانا شرو ع کر دیا تھا،یہ بات اکبر ؔ نے اس وقت کہی تھی جب سر سید اور اس کے جیسے بہت سارے لوگوں نے انگریزوں کے رسم ورواج کو لوگوں کے مابین عام کرنا شروع کردیا تھا حالانکہ سر سید کے بارے میں یہ کہنا مناسب نہیں ہوگا کیونکہ سر سید نے لوگوں سے انگریزی سیکھنے کی اپیل اس لیے کی تھی تاکہ لوگوں کو ایک نئی زبان سیکھنے کو ملے،ویسی بھی اردو زبان کی نشرو اشاعت میں سر سید کا اچھا خاصا ہاتھ شامل ہے۔ بہر حال ہم اس بات کو یہیں رہنے دیتے ہیں کیونکہ یہ ایک بہت ہی وسیع وعریض بات ہے۔
اکبرؔ نے جس طرح کے خوف کا اظہار اپنی اس نظم کیا تھا اب یہ ہر کسی کی آنکھوں کے سانے موجود ہے ہم بھی یہیں ہیں اور ہر کوئی آمنے سامنے ہے،آج ہر کوئی یہ چاہتا ہے کہ کیسے نہ کیسے کر کے اسے انگریزی آجائے تاکہ لوگ اسے پڑھا لکھا ہوا سمجھنے لگیں حالانکہ یہ اصل پڑھائی تھوڑی ہے مگر جب ماحول ہی اس طرح کا بنایا جاچکا ہو تو پھر ہم کیا کرسکتے ہیں؟بہر حال ہمیں اس بات کا افسوس ضرور ہونا چاہئے۔اکبرؔ نے کہا تھا کہ ایک زمانہ آئے گا جب کا دور بہت ترقی یافتہ ہوگا اوراس وقت شرم و حیا کا معیار بد ل جائے گا،ایک وقت آئے گا جب معیارِ شرافت کی تعریف کچھ اور ہی ہوگی،ایک وقت آئے گاجب لوگ مغربی تہذیب ہی کو اپنا تہذیب مان بیٹھیں گے اور بے شک ان حقائق پر کوئی شک نہیں ہے بلکہ یہ تو روزِ روشن کی طرح عیاں وبیاں ہے۔اکبر ؔ کے خیالات کو ماننا پڑے گا کہ انہیں جس چیز کا خوف تھا وہ بجا تھا بے جا نہیں تھا وہ صحیح تھا وہ بکواس نہیں تھا مگر افسوس جب لوگوں نے اردو سے نا آشنائی ہی اختیار کر لیا تھا تو اکبرؔ کی یہ نظم کیسے کسی کے زیرِ مطالعہ یا زیرِنصاب کیسے آتی۔ یہ بھی ایک سوچنے کی بات ہے۔
آج عالم میں جہاں بھی نظر دوڑائیں ہر ملک میں ہمیں ایسی بہت سارے جامعات مل جائیں گے جہاں اردو زبان کو اپنا ایک الگ مقام حاصل ہے جو کہ قابلِ فرحت ومسرت ہے۔مگر مسئلہ یہ نہیں ہے کہ آج ہماری اس ترقی یافتہ دنیا میں اردو کے لیے کوئی ادارہ نہیں ہے بلکہ مسئلہ تویہ ہے کہ لوگوں کے ذہن سے اردو زبان کو مٹانے اوراس کی اہمیت کو حتی الامکان کم کرنے کی فرقہ وارانہ کوشش کی جارہی ہے جو کہ ایک افسوس ناک بات ہے۔ جس پر ہمیں افسوس کرنے بھی زیادہ نئے نئے اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے ورنہ اس کا خمیازہ ہمیں خود ہی بھگتنا پڑے گا۔اردو زبان سے متعلق چند ایسی باتیں جو سچ تو ہیں مگر تھوڑی کڑوی بھی ہیں:
(۱) اردو زبان کسی مذہب کی خاص زبان نہیں ہے۔
چند دنوں قبل ایک ویڈیوں وائرل ہوئی تھی جس میں ایک شاعر صاحب (اتفاق سے ان کا نام یاد نہیں رہا)اردو زبان سے متعلق ایک دو اشعار پیش کررہے تھے جو کچھ اس طرح سے ہے”ہند کی آن بان ہے اردو……رونقِ کل جہان ہے اردو ……کیا کہا اردو غیر ملکی ہے؟……تیری ماں کی زبان ہے اردو“جو ایک طرف سے سنجیدگی اور دوسری طرف مزاحیہ بھی معلوم ہو رہی تھی۔اب ہم اگر اس شعر کو سمجھنے کی کوشش کریں تو ہمیں ایک بات صا ف صاف نظر آجائے گی کہ اردو کسی مذہبِ خاص کی زبان نہیں ہے جس طرح کہ ہم دوسری زبانوں کے بارے میں حتی الامکان کہہ سکتے ہیں۔چونکہ آج کا ہندوستان بدل رہا ہے اگر چہ اچھائی سے برائی کی ہی اورسہی تو اب یہاں کے حالات نے اپنا رنگ دکھانا شروع کر دیا ہے۔آ ج کے ہندوستان کی وہ حالت نہیں رہ گئی جو پہلے ہوا کرتی تھی کیونکہ پہلے تو یہاں بھائی چارگی تھی،پہلے تویہاں دوستی تھی،محبت تھی،عنایت تھی نصرت وامداد کا دامن وسیع سے وسیع ترمعلوم ہوتا تھا مگر اب ہر چیز میں ہندو مسلم کیا جارہا ہے خواہ وہ مساجد ومندر ہوں،چاہے کھانا پینا ہو یا تو زبان ہو۔
ہم نے اپنے بچپن سے ہی ہندی زبان سیکھی اور پڑھی بھی جس کی وجہ یہ تھی کہ ہم نے کبھی بھی ہندی کو ہندؤں کی زبان نہیں سمجھا تھا ورنہ تو اب ایسے بہت سارے لوگ بھی دیکھنے کو مل جاتے ہیں جن کے مطابق ہندی زبان ہندؤں اور اردو زبان مسلمانوں کی ہے حالانکہ اس کی کوئی حقیقت نہیں۔جس طرح ملک ہندوستان میں ہر جگہ تشدد وبربریت کا ماحول ہے تو بھلا اردو زبان کو کوئی کیسے چھوڑ سکتا ہے یہ بات لگ بھگ اس وقت کی ہے جب ہندوستان میں انگریزوں کی حکومت اسی وقت اردو زبان کو لیکر لوگوں میں لڑائی دیکھی گئی صرف اور صرف اس بات پر کہ اردو کو دوسرے نمبر کی زبان قرار دیا جائے اور پھر ہوا بھی کچھ ایسا۔آج کے اس ہندوستان میں اردو زبان کو ایک غیر ملکی اور جہادی زبان کے نام سے حتی الامکان نہیں بلکہ اپنی ایڑی چوٹی کا زور لگا کر موسوم کیا جارہا ہے جو کہ ایک حد تک ناقابلِ قبول بات ہے۔حالانکہ اردو زبان نہ تو کسی خاص مذہب کی زبان ہے اور نہ ہی کسی مخصوص جماعت کی۔آپ اگر اردو ادب کا مطالعہ کریں گے تو اس بات کے معترف ہو ہی جائیں گے کہ ایسے بے شمار شعراء ہیں جو کہ ہندو مذہب سے تعلق رکھنے والے تھے مگر اردو ادب میں انکا ایک خا ص مقام ہے مثال کے طور پر رگھو پتی سہائے جنہیں ہم فراقؔ گورکھپوی کے نام سے جانتے ہیں،چکبست ؔ جو کہ کسی تعارف کے محتاج نہیں ہیں ایسے ہی بہت سارے شعراء وکتاب مل جائیں گے مگر جب لوگوں نے آنکھ ہی بند کر لیا ہو تو دیکھنے اور دکھانے کی باتیں جیسی کی تیسی دھری کی دھری رہ جائیں گیں۔
(۲) اردو زبان سے منہ پھیرناکتنا صحیح اور کتنا غلط؟
چونکہ یہ بات بھی صحیح نہیں ہے کہ ہر معاملے کو صرف اور صرف ایک ہی نظر سے دیکھا جائے کیونکہ ہر سکے کا دو پہلو ہوتا ہے پس اس لئے ہم اردو زبان سے لاتعلقی کے نقصانات ہی نہیں بلکہ اس سے لاتعلقی کے کتنے امکانات ہیں اس پر بھی بحث کرنی ضروری ہے۔چونکہ آج کا زمانہ کافی حدتک ترقی کر چکا ہے اور اس سے بھی زیادہ کررہا ہے جس کی رفتار شاید اب نہیں رکے گی۔آج ہم ایک ایسے ماحول زندگی گزار رہے ہیں جہاں پر ہر کام کو انجام دینے کے لئے ایک مخصوص زبان کا استعمال ہوتا ہے جسے آج ہم انگلش کے نام سے جانتے ہیں تو بس اب یہ بات تو صاف ہو گئی کہ ہمیں اردو چاہے آئے یا نہ آئے یہ ایک الگ بات ہے مگر انگلش معلوم ہونا ضروری ہے ورنہ تو ہمیں اپنی زندگی کی راہوں میں کافی حد تک مشکلات کا سامنا کر نا پڑے گا۔مگر چونکہ اردو زبان سے لاتعلقی کا مکمل مظاہر ہ کر نا بھی صحیح نہیں ہے کہ کیونکہ اردو ایک ایسی زبان ہے جس کا غلبہ ایک لمبے زمانے تک رہا جس کا نتیجہ یہ ہوا ہے کہ سینکڑوں تاریخی،ادبی،سائنسی،جغرافیائی،عقائدی،فلسفیانہ،اور شرعی کتابیں لکھی جا چکی ہیں جن کی کوئی نظیر ومثیل چراغ لے کر ڈھونڈھنے سے بھی نہیں ملتی۔اب جب کہ ان علوم کا اخذ اسی وقت ممکن ہو سکتا ہے جب ہمیں اس زبان کا علم ہو ورنہ تو یہ محال ہے پس ہمیں اردو زبان کم ازکم اس لئے سیکھنی اورپڑھنی ہوگی تاکہ ہم ان علوم کو پڑھ کر غیروں تک پہنچا سکیں۔آج کل ایک کتاب کے علم کو دوسروں تک(جواس کتاب کی زبان سے ناآشناہوں) پہنچانے کا بہترین ذریعہ تر جمے کو مانا جاتا ہے جس کے لئے یہ ضروری ہے کہ ہم پہلے اردو پڑھیں تاکہ اس کا ترجمہ غیر زبانوں میں ممکن ہو سکے اور الحمد للہ ابھی تک بہت ساری اردو اور فارسی کی کتابیں دوسری زبانوں میں منتقل ہو چکی ہیں۔پس اردو زبان کو ایک دم سے چھوڑ دینا اور اسے پس پشت ڈال دینا ہر گز بھی انصاف نہیں ہے بلکہ یہ سراسر بے وقوفی اور احمقیت کا مظاہر ہ کرنا ہے۔
(۳) اردو زبان اپنے زوال پر ……کیا حقیقت کیا فسانہ
اکثر دفعہ بہت ساری تقاریر اور تحریروں کے ذریعے ایک بات سننے کو ملتی رہی ہے کہ اردو کو بچا لو ورنہ یہ ختم ہو جائے گی اور آنے والے دنوں میں اس کا نام بھی باقی نہیں بچے گا تو آخر اس بات میں کتنی سچائی ہے؟کیا اردو سے کنارہ کشی کا سچ میں ایسا خمیازہ بھگتنا پڑ سکتا ہے؟کیا حقیقت میں آنے والے دنوں میں اردو کا نام باقی نہیں بچے گا؟ان سارے سوالات کے جواب ہم بداہتہَ سمجھ سکتے ہیں کیونکہ ایک عام قاعدہ ہے”جس بھی چیز کی اہمیت کو ہمیت نہیں دی جاتی اور اس کی ناقدری کی جاتی ہے تو اس کا انجام اختتام ہی ہوتا ہے جس کاتاریخ بھی شاہد ہے اور اسکا انکار نہیں کیا جاسکتا“اب بات بالکل صاف ہے کہ اگر ہم اردو زبان کو وہ اہمیت نہیں دیں گے جس کی اسے ضرورت ہے تو آنے والے دنوں میں ان کئے گئے سوالات کا جوا ب صاف دکھائی دیگا۔
یہ بات جو اتنی جلیل القدری کے ساتھ کہی جاتی ہے کہ اردو ختم ہونے والی ہے اور اس کو سہارے کی بہت اشد ضرورت ہے تو یہ ایک حد تک صحیح بھی ہے کیونکہ اگر سنبھالا اورحفاظت نہیں کیا تو برباد ہونا تو لازمی ہے مگر اتنی بھی جلدی اس زبان کو ختم نہیں کیا جاسکتا کیونکہ یہ وہ زبان ہے جس کی حکومت کی تاریخ کافی لمبی ہے۔بقول شاعر ناچیز عدمؔ ؎
زبان ایسی کہ جس نے ہر گھڑ ی مجھ سے شکایت کی
”کہانی ہی نہ مٹ جائے کہیں میری حکومت کی“
زبان ایسی کہ جس کا نام”اردو“ہے جہاں والوں
اسے سیکھو،اسے پڑھ لو یہ جادو ہے جہاں والوں
بہر حال کہنے کی بات بس اتنی ہے کہ اردو زبان کو وہ اہمیت دینا ضرور ی ہے جس کی وہ مستحق ہے ورنہ آنے والے دنوں میں ہم جیسے محبان اردو زباں کو کافی حد تک عظیم خسارے کا سامنا کر نا پڑ سکتا اور وہ کہتے ہیں نہ ”گیا وقت پھر ہاتھ آتا نہیں ……مرا بیل پھر گھاس کھاتا نہیں“تو بہتر یہی ہے کہ وقت رہتے ہم اردو کی حفاظت کریں،اسے سیکھیں سکھائیں اور لوگوں کو اس سے آشنا کرائیں تاکہ اس کی حیات میں چند عرصے اور بھی جڑ سکیں اور ہم عند الناس مشکور وممنون ہو سکیں اور اردو کے محافظین کی فہرست میں نام رقم کرواسکیں اللہ ہمیں اردو زبان کی بقا کیلئے کام کرنے کی توفیق رفیق عطا فرمائے ……آمین۔