خوش فکر وخوش کردار اَفراد کا انتخاب ضروری
ہمارا ہندوستان، جہاںمہمانوں کو خداکا فرستادہ سمجھاجاتاہے، جہاں انسانیت سے محبت ہی دین اور دھرم شمار کیا جاتاہے اورجہاں عورتوں کو ماں، بیٹی، بہن، بہو کے روپ میں وقار و عزت بخشاجاتاہے آج اُسی ہندوستان میں یہ سب باتیں ایک خواب کی مانند لگنے لگی ہیں۔ کیوں کہ آج ہندوستان میں نہ مہمانوں کے لیے کسی کے پاس فرصت ہے، نہ انسانیت سے کسی کو محبت ہے اور نہ عورتوں کو پاکیزہ رشتوں میں دیکھنے کا چلن باقی ہے۔بلکہ اس کے برعکس عورتیں، طوائف محض بن کر رہ گئی ہیں،مہمان جی کا جنجال لگنے لگاہے اور اِنسانیت، درندگی میں تبدیل ہوگئی ہے۔
موجودہ ہندوستان کا جائزہ لیا جائے تو اِحساس ہوتا ہے کہ جو جس قدر عورتوں کی عزتیں نیلام کررہا ہے وہ اُسی قدر دبدبہ والا ہے، جو جس قدر اِنسانیت کا جنازہ نکال رہا ہے وہ اُسی قدر ترقی یافتہ ہے اور جو جس قدر شیطانیت اور رَاون گیری کا مظاہرہ کررہا ہے وہ اُسی قدر بہادر ہے۔ گویا ہرایک چیز کا معنی ومفہوم ہی بدل دیاگیا ہےکہ کل جس کام کو رَات کی تاریکی میں بھی کرنے سے ہمارا معاشرہ، ندامت وشرمندگی اور خوف وڈر محسوس کرتا تھا آج وہی کام دن کے اُجالے میں کیا جارہا ہے اوراِس کو فخرکے طورپر بیان بھی کیا جارہا ہے۔ کل جو معاشرہ اپنی عورتوں کی عزت وآبرو کے تحفظ کے لیےایک پاؤں پرکھڑا رہتا تھا اور آج وہی معاشرہ اپنی عورتوں کی عزت وآبرو پر ڈاکہ ڈالنے والوں کا اِستقبال پھول-مالا سے کررہا ہے ۔ اس کے ساتھ ہمارے معاشرے کی بےحسی اور دریدہ ذہنی کا ثبوت اِس سے بڑا کیاہوگا کہ یہ تمام باتیں دیکھتے اور سنتے ہوئےبھی اِس کے خلاف ایک لفظ بولنے کے لیے کوئی تیار نہیں ہے۔ کیا تعلیم یافتہ طبقہ اورکیا غیرتعلیم یافتہ طبقہ، سب اپنی اپنی دنیا میں مست ومگن ہیں اورشاید یہ سوچ کرسب خاموش ہیں کہ یہ ہمارا معاملہ تھوڑی ہے۔ چناں چہ اگر واقعی ہم میں سے کوئی شخص ایساذہن اور نظریہ رکھتا ہے،تو یہ ہم تمام ہندوستانیوں کے لیے ڈوب مرنے والی بات ہےکہ ہم لوگ ایسوں کو برداشت کررہے ہیں جو ہماری تہذیب وکلچر اور ہمارے ملک ومعاشرے کی بنیاد کھوکھلا کرنے کے درپے ہیں۔ہم میں سے ہرہندوستانی کویہ باتیں ازبر کرلینا چاہیے کہ اگر ہم اپنے آس-پاس کی گندگیوں کو صاف نہیں کرتے،تو ایک نہ ایک دن اُس گندگی کا شکار ہم بھی ضرور ہوں گے۔
آج ہمارے ملک ومعاشرے میں جس قدر غیرانسانی حرکتیں آسمان کو چھو رَہی ہیں اِ س کےاصلی ذمہ دار خودہم ہندوستانی ہی ہیں۔ کیا یہ درست نہیں ہےکہ ہم نے اپنا لیڈر اور قائد اُن ہی کو بنایاہے جو اَپنے وقت کےاِنتہائی غیرمہذب، بدزبان،جاہل،لٹیرے،خونی،قاتل، کبابی، عیاش، بدقماش، مفاد پرست اوردَل بدلو ہیں۔ کیا یہ حقیقت ہم نہیں جانتے ہیں کہ ہمارے لیڈر، اِنسانی لاشوں پر کامیابی کی منزلیں طے کرنےمیں یقین رکھتے ہیں اور اپنی کامیابی کےلیے ہراُس طبقات کو رُوندڈالنا اپنا فرض منصبی سمجھتے ہیں جو اُن کےلیے وبال جان بن جائے، خواہ وہ جس کسی مذہب/قبیلہ سے تعلق رکھتے ہوں۔بسااوقات تو اپنی منزل پانے کے لیے ہمارے یہ لیڈران اپنے ہم پیالہ اور ہم نوالہ افرادکو بھی ذبح کرنے سے دریغ نہیں کرتے۔ چناں چہ جب ہم نےاپنے پیشوایان ہی ایسے افراد کو بنارکھا ہے جودَرندگی کے دلدادہ، محبت واخوت کےدشمن،انسانی لاشوں کے سوداگر، حرص وہوس کے پجاری اور عیاش فطرت ہیں، تو اُن سے کسی خیرکی اُمیدکس بنیاد پر رکھی جائے؟بلکہ سچ تو یہ ہے کہ ہم اُن سے شکوہ-شکایت کرنے کا حق بھی کھو چکے ہیں کہ ’’پیڑ بوئے ببول کا تو آم کہاں سے کھائے‘‘۔اِس لیے اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے درمیان اور ہمارے ملک وملت کے اندر خیر سگالی کا معاملہ پروان چڑھے اورہمارامعاشرہ اَمن وآشتی اور اُخوت ومروت کا گہوارہ بنا رہےاوراِس کی گنگا-جمنی تہذیب سلامت رہے، تو ہم تمام ہندوستانیوں پر لازم ہے کہ2024ء کے انتخاب میں انتہائی دانشمندی کا ثبوت پیش کریں اور اَیسےہی افراد کو اَیوان سیاست تک پہنچائیں جو تعلیم یافتہ ہوں،وطن پرست ہوں، مثبت فکر کا مالک ہوںاوراِنسان دوست اور اَخلاق مند ہوں۔ جن کے اندر ملکی سطح پر بین المذاہب ہم آہنگی کا جذبہ ہو اور جو خیرسگالی اور اقلیت واکثریت اتحادواتفاق میں یقین رکھتا ہو۔ جن کی زندگی کا مقصدشراب وکباب، عیش ومستی نہ ہو اور ذخیرہ اندوزی نہ ہو۔جو اِنسانوںکے دکھ-درد کو سمجھنے والاہووغیرہ۔ ورنہ یاد رکھیں کہ2024ء کا انتخاب اگر اِبن الوقتوں، مفاد پرستوں اورسیاسی قزاقوں کے حق میں سازگارہوگیا تو ملک وملت کومزید نقصان سے کوئی نہیں بچاسکتا ہے اور اُس وقت کف افسوس ملنے کے سوا کچھ ہاتھ نہ آئے گا۔
القصہ! 2024ء انتخاب کی صورت میں ہم ہندوستانیوں کے پاس ایک بڑا سنہرا موقع ہے کہ اپنے ملک وملت کی تعمیروترقی کے لیےکچھ ایسا کرجائیں کہ ہمارا ملک ومعاشرہ ہرطرح کے شرپسندعناصرجیسےنسیڑی،گجیری،خونی،قاتل،عیاش،بدقماش،سیاسی قزاق، مفادپرست،انسانی لاشوں کے سوداگر جیسےافرادسے پاک وصاف ہوجائےاور اُن کی جگہ تعلیم یافتہ، خوش، فکر،خوش کردارسنجیدہ مزاج ،اُخوت ومحبت کا دلدادہ جیسےاَفراد آجائےکہ ہندوستان کی سلامتی ایسے ہی افراد کے انتخاب میں مضمر ہے۔نیزمتعصب ومتنفرماحول سےبھی نجات مل جائے اوراُس کی جگہ اُخوت ومروت اور اِنسان دوستی لے لےکہ یہی ہمارے ملک ومعاشرے کے حق میں بہترہے،چناں چہ اگرایساہوجاتا ہے توملکی سطح پر گنگا -جمنی تہذیب وثقافت اور اَمن وآشتی کانقارہ ایک بار پھر سےبخوبی گونج اُٹھےگا جسے ابن الوقتوں نے یرغمال بنارکھا ہے۔