[ad_1]
“لوگ ساتھ آتے گئے اور کارواں بنتا گیا”
جمہوریت کا “لڑکھڑاتا” چوتھا ستون یعنی میڈیا بھلے ہی آپ کو بھارت جوڑو یاترا کی کوریج نا دکھا رہا ہو لیکن حقیقت میں اس یاترا نے عوام کے دلوں میں اپنی جگہ بنا لی ہے۔ عام ہندوستانی اس بات کے لئے قابل رحم ہیں کہ جب بھی ان کے مسائل کو مد نظر رکھتے ہوئے کوئی تحریک شروع کی جاتی ہے تو بجائے ان کے مسائل کو حکومت تک پہنچانے کے ، میڈیا کا ایک خاص طبقہ تحریک اور ان سے جڑے لوگوں کے خلاف ہی پروپیگنڈا کرنے میں اپنی پوری طاقت جھونک دیتا ہے۔ ان کے “خبری لال” عوام کی طرف سے ہورہے احتجاج یا تحریک کی خبر بنانے نہیں بلکہ اس کی “خبر لینے” پہنچ جاتے ہیں۔ شاہین باغ احتجاج اور کسان تحریک اس کی تازہ مثال ہیں۔ کس طرح پرامن طریقے سے ہورہے احتجاج کو اسی خاص طبقے کے میڈیا نے منفی اور ملک مخالف تحریک کا نام دیا تھا ۔ احتجاج میں شامل عوام سے اوٹ پٹانگ یا اشتعال انگیز سوالات پوچھ کر انہیں مشتعل کرنے کی کوشش کی جاتی تھی۔ بعد میں عوام کی باتوں کو کاٹ چھانٹ کر ٹی وی پر دکھایا جاتا تھا اور ناظرین کے دل و دماغ میں شاہین باغ اور کسان تحریک کے خلاف نفرت انگیزی ڈالی جاتی تھی۔ میڈیا کا یہی رویہ دیکھتے ہوئے جہاں عوام اپنے مسائل کو پرامن طریقے سے حکومت کے سامنے رکھنے کی کوشش کرتے ہیں، وہیں انہیں احتجاج سے جڑی فیک خبروں کی تردید اور صحیح خبر دکھانے کے لئے مجبوراً ایک اضافی محنت بھی کرنی پڑتی ہے۔ آپ کو یاد ہوگا ، کسان احتجاج کے دوران میڈیا کی طرف سے بارہا جھوٹی خبریں دکھائے جانے سے تنگ قابل رحم کسان بھائیوں کو سوشل سائٹس پر اپنا ایک الگ پیج /چینل بنانا پڑا تھا۔ جہاں وہ صحیح خبریں دکھانے کے ساتھ ہی ان خبروں کی تردید بھی کیا کرتے تھے جو تحریک کو بدنام کرنے کی نیت سے دکھائی جاتی تھیں۔
راہل گاندھی کی بھارت جوڑو یاترا کے ساتھ بھی میڈیا والوں نے اپنا یہی کھیل جاری رکھا۔ یاترا کے ابتدائی دور میں کانگریس اور راہل گاندھی کو مذاق اور تنقید کا خوب نشانہ بنایا گیا، جس میں ملک کی میڈیا پیش پیش رہی۔ ۔یہاں تک کہ راہل گاندھی کے کھانے ، پینے، پہننے پر بے بنیاد سوالات تک اٹھائے گئے لیکن یہی تنقید ، مذاق اور یاترا کے مخالف لگاتار دکھائے جانے والی خبروں کو بار بار گھسیٹنے سے کہیں نا کہیں یاترا عوام کے درمیان مقبول بھی ہوئی۔ میڈیا کے منفی رویے کا اندازہ راہل گاندھی کو یقیناً پہلے سے تھا۔ امید کے عین مطابق میڈیا کا ایک خاص طبقہ بھارت جوڑو یاترا کے خلاف خبریں دکھاتا رہا جن کی تردید راہل گاندھی اور ان کی ٹیم مسلسل کرتی رہی اور سوشل نیٹ ورکنگ سائٹس ، پریس کانفرنس، علاقائی اخبارات اور چینلز کے سہارے یاترا سے جڑی اپ ڈیٹس کو عوام تک پہنچاتی رہی۔
7 ستمبر 2022 سے جاری راہل گاندھی کی قیادت میں شروع ہونے والی اس یاترا کا مقصد مہنگائی ، نفرت انگیزی اور بے روزگاری کے خلاف عوام کو متحد کرنا تھا۔ اس یاترا میں عوام کی ایک بڑی تعداد بالخصوص نوجوان، سماجی تنظیموں سمیت ملک کی کئی اہم اور سرکردہ شخصیات نے شرکت کرکے یاترا کی حمایت کی ۔ سنجے راؤت، یوگیندر یادو، پوجا بھٹ، سوارا بھاسکر، کمل ہاسن، فاروق عبداللہ، پرکاش راج وغیرہ جیسے مختلف شعبوں سے جڑے لوگ بھارت جوڑو یاترا میں شریک ہوئے۔
اس پوری یاترا کے دوران راہل گاندھی کی طرف سے اس بات کی کئی دفعہ یاد دہانی کرائی گئی کہ اس کا مقصد عوام کو جوڑنا اور ملک سے نفرت انگیزی کو ختم کرنا ہے۔ بھارت جوڑو یاترا کا مقصد بھلے ہی سیاسی مفاد نا بتایا جارہا ہو لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ عرصے سے سستی کا شکار کانگریس اب متحرک نظر آنے لگی ہے۔ سردی ، بارش ، برف باری، تنقید، تضحیک کی پرواہ کئے بغیر بھارت جوڑو یاترا اب اپنے آخری مرحلے میں داخل ہے۔ یاترا کی مقبولیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ کانگریس کو خیرآباد کہہ کر جو لیڈران جاچکے تھے، اب وہ کانگریس کی طرف دھیرے دھیرے لوٹنے لگے ہیں۔ جس کا کانگریس نے خیر مقدم کیا ہے۔ خبروں کے مطابق سینئر لیڈر غلام نبی آزاد کی ڈیموکریٹک آزاد پارٹی کے 17 رہنماؤں نے کانگریس میں واپسی کی ہے۔ واضح رہے کہ سینئر لیڈر غلام نبی آزاد نے کچھ عرصہ قبل ہی کانگریس کا ساتھ چھوڑ کر اپنی ایک الگ پارٹی بنائی تھی۔
بھارت جوڑو یاترا آنے والے انتخابات میں کانگریس کے لئے کتنی فائدہ مند ثابت ہوگی اس بات کا اندازہ ابھی مشکل ہے لیکن بہرحال کانگریس مخالفین بھی اب اس یاترا کی مقبولیت کے قائل ہونے لگے ہیں۔ 30 جنوری کو سری نگر میں بھارت جوڑو یاترا کا اختتام پرچم کشائی کے ساتھ ہونا طے پایا ہے۔ اس کے بعد کانگریس خود کو سیاسی طور پر متحرک رکھنے کے لئے کیا طریقہ اپناتی ہے، یہ دیکھنا دلچسپ ہوگا۔ 2024 کے لوک سبھا انتخابات میں ابھی وقت ہے لیکن بی جے پی نے اس کی تیاریاں پوری لگن و محنت سے شروع کردی ہیں۔ یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ مہنگائی، بے روزگاری، عوامی مسائل ایک طرف اور ہندوستانی عوام کے مذہبی جذبات ایک طرف ہیں۔ عوام کی اس ” کمزوری” کا بہرحال خوب فائدہ اٹھایا جاتا ہے۔ آنے والے انتخابات میں بھی اٹھایا ہی جائے گا۔ بی جے پی کو شکست دینا کانگریس کے لئے ایک بڑا چیلنج تو ہے ہی لیکن بہرحال حمایتیوں اور مخالفین کی نظر میں بھارت جوڑو یاترا ایک تحریک بن گئی ہے جس کا عوام نے خیر مقدم کیا ہے ۔عوام کے مسائل ان کے درمیان جاکر ہی بہتر طور پر سمجھے جاسکتے ہیں۔محض بڑے بڑے جملوں ، وعدوں اور کیمرا کی طرف دیکھ کر ہاتھ ہلا دینے سے عوام کے مسائل نا کبھی حل ہوئے ہیں ، نا ہوں گے۔
حمنہ کبیر، وارانسی (بشکریہ روزنامہ راشٹریہ سہارا)
[ad_2]
Source link