اسلام آباد: اسلام آباد سے لاپتا 4 بھائیوں کی بازیابی کے کیس میں ہائی کورٹ نے ناقص تفتیش پر پولیس افسران پر برہمی کا اظہار کیا۔
تھانہ کھنہ کی حدود سے جنوری سے لاپتا 4 بھائیوں کی بازیابی سے متعلق کیس کی سماعت ہوئی، جس میں عدالت نے ایس ایس پی انویسٹی گیشن اسلام آباد کو مغویوں کی بازیابی کے لیے ہر ممکن اقدامات کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے وزارت دفاع ، داخلہ ، ایف آئی اے سمیت دیگر اداروں سے بھی رپورٹ طلب کرلی۔
عدالت نے مغویوں کی بازیابی کے لیے ایس ایس پی انویسٹی گیشن کو تمام انٹیلی جنس ایجنسیوں کےاداروں اور چاروں صوبوں کو خط لکھنے کی ہدایت بھی کی۔ چیف جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ تمام اداروں اور صوبوں کو خط لکھیں اور اگلے ہفتے پیش رفت رپورٹ سے آگاہ کریں۔
دورانِ سماعت چیف جسٹس عامر فاروق نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے پولیس افسران کے ساتھ مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ اسلام آباد پولیس کا تو کوئی حال ہی نہیں ہے، کوئی ذمے داری نہیں لیتا۔ کیا پنجاب میں بھی تفتیشی افسر ایسے ہی ہیں؟ اسلام آباد میں تو کوئی اونرشپ ہی نہیں لیتا۔ آج یہاں ہیں کل آئی جی صاحب تبدیل ہوں گے تو یہ بھی کہیں اور چلے جائیں گے اور بات ختم۔ پنجاب میں تو ٹرانسفر ہو کر بھی پنجاب ہی میں گھومتے ہیں۔
ایس ایس پی اسلام آباد نے عدالت کو بتایا کہ تفتیشی افسران کو تربیتی نشستیں کروارہے ہیں ، آگے بہتری ہوگی۔ جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ایسے نہیں ہوتا یہاں تو جائے وقوع کے فنگر پرنٹس بھی نہیں لیے جاتے اور نہ جانے کیا کیا خامیاں ہیں۔ سی ڈی آر کا پتا نہیں ہوتا نہ کوئی ریکارڈ پورا ہوتا ہے۔ ایسے تو اگلے 10 سال کچھ نہیں ہونا۔ تفتیشی افسر کو تبدیل کریں، چیزیں سب فنگر ٹپس پر ہونی چاہییں۔
چیف جسٹس نے پولیس افسر سے استفسار کرتے ہوئے کہا کہ آپ نے اس معاملے کو دیکھا ہے کہ کیا پیش رفت ہے؟، جس پر ایس ایس پی راولپنڈی نے جواب دیا کہ میں نے فیملی کو سنا ہے اور تفتیشی افسر کو بھی سنا ہے،کوئی ثبوت نہیں ہے کہ پنجاب پولیس نے اٹھایا۔ ہم ہر طرح کا تعاون کررہے ہیں ، اسلام آباد پولیس کے ساتھ رابطے میں ہیں۔ جو ویڈیو دی گئی، ایف آئی اے کے مطابق اس کی شناخت نہیں ہورہی۔ تحقیقات چل رہی ہے امید ہے کہ پیش رفت ہو گی۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ تفتیش اسلام آباد پولیس ہی کرے گی۔
بعد ازاں عدالت نے ہدایات جاری کرتے ہوئے کیس کی سماعت آئندہ ہفتے تک ملتوی کردی۔