اسلام آباد: ایف بی آر نے رواں مالی سال کی پہلی سہہ ماہی کے دوران حیران کن کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے 2.56 ہزار ارب روپے کا ٹیکس جمع کرلیا، لیکن اس کے باوجود ایف بی آر کو ٹیکس ہدف کی وصولی میں 93 ارب روپے کے خسارے کا سامنا کرنا پڑا ہے۔
واضح رہے کہ ایف بی آر نے پہلی سہہ ماہی کے دوران 170 سے 200 ارب روپے تک ٹیکس خسارہ رہنے کا امکان ظاہر کیا تھا، ٹیکس وصولی میں نمایاں اضافے کی بنیادی وجہ نان فائلر کیٹیگری کا خاتمہ، پلاٹ، کار خریدنے اور بینک اکاؤنٹ چلانے پر پابندی کی پالیسی ہے، جس سے فائلرز کی تعداد میں نمایاں اضافہ ہوا ہے اور 3.7 ملین ٹیکس ریٹرنز فائل کیے گئے ہیں، اور ایف بی آر کو 46 ارب روپے کا اضافہ ٹیکس موصول ہوا ہے۔
ایف بی آر نے ایکسپورٹرز کے 30 ارب روپے کے سیلز ٹیکس ریفنڈز بلاک کیے ہیں، اور ایڈوانس انکم ٹیکس بھی وصول کیے ہیں، چیئرمین ایف بی آر راشد لنگڑیال نے کہا کہ نان فائلر کا تصور ختم کرنے اور ٹیکس نا دہندگان کے خلاف سخت کارروائی کے امکان نے ٹیکس وصولیوں میں اضافے میں مدد کی ہے، تاہم ابھی تک ایف بی آر نے ریٹیلرز کے گرد گھیرا تنگ نہیں کیا ہے۔
ایف بی آر کو مجموعی طور پر 3.7 ملین انکم ٹیکس ریٹرن موصول ہوئے ہیں، جو کہ گزشتہ سال کی اس مدت کے مقابلے میں 86 فیصد زیادہ ہیں، گزشتہ سال ایف بی آر کو صرف 48 ارب روپے کا انکم ٹیکس موصول ہوا تھا، جو کہ اس بار ڈبل ہو کر 96 ارب کی سطح پر پہنچ گیا ہے، جولائی سے اب تک 341,000 افراد نے پہلی بار اپنے ریٹرنز فائل کیے ہیں، تاہم 238,000 نے کوئی انکم ظاہر نہیں کی۔
واضح رہے کہ آئی ایم ایف نے پہلی سہہ ماہی کے دوران 2.652 ہزار ارب روپے کا ٹیکس جمع کرنے کا ہدف دیا تھا، ابتدائی جائزوں کے مطابق ایف بی آر نے 2.56 ارب روپے ٹیکس جمع کیا ہے جو کہ ہدف کے مقابلے میں 93 ارب روپے کم ہے، ایف بی آر نے ٹیکس وصولیوں میں 25 فیصد بہتری دکھائی ہے، جبکہ ہدف کو حاصل کرنے کیلیے 40 فیصد بہتری کی ضرورت ہے۔