اس وقت میرے سامنے جوکتاب ہے، اس کا نام ہے ’’ بادشاہوں کی آپ بیتیاں‘‘ اس کی تلخیص و انتخاب محمد حامد سراج نے کی ہے۔ اس کتاب سے کچھ اقتباسات آپ کی نذرکرتے ہیں۔ نورالدین محمد جہانگیر 31 اگست 1569 میں پیدا ہوا اور 28 اکتوبر 1637 میں وفات پائی۔ جہانگیر بڑی منتوں مرادوں سے پیدا ہوا تھا۔ تزکِ جہانگیری اصل میں فارسی میں ہے۔ اس کا ترجمہ کئی لوگوں نے کیا ہے، اس وقت حامد سراج کا ترجمہ حاضر ہے۔
ہمیں حیرت اس بات پر ہے کہ جہانگیر کی زندگی میں نور جہاں کا کردار بہت نمایاں ہے، وہ کسی حد تک جہانگیر کے فیصلوں پر اثرانداز ہوتی تھی، ان تذکروں سے کتابیں بھری پڑی ہیں، لیکن حامد سراج کے ترجمے میں کہیں بھی نور جہاں کا ذکر نہیں ملتا، جب کہ جہانگیر نے اپنی خواصوں تک کا ذکرکیا ہے، لیکن نور جہاں کا کہیں نہیں ہے۔ البتہ نور جہاں کے پہلے شوہر شیرافگن کا برائے نام ذکر ہے، جو شکارکے لیے گیا اور واپس نہ آیا۔ شیرافگن نہایت بہادر شخص تھا اور اس نے ایک شکار میں شیرکا جبڑا اپنے دونوں ہاتھوں سے چیر دیا تھا، جس کی بنا پر اسے شیر افگن کا خطاب ملا تھا۔
شہنشاہ اکبرکی کوئی اولاد نرینہ نہیں تھی۔ اٹھائیس سال کی عمر تک ان کی کوئی اولاد زندہ نہ رہ سکی تھی۔ اکبر بادشاہ ولیوں اور پیروں کا بہت بڑا معتقد تھا، خواجہ معین الدین چشتی اجمیری سے اکبر کو بے حد عقیدت تھی۔ اکبر اولاد نرینہ کی تمنا لیے حضرت کی درگاہ پہ حاضر ہوا اور دعا کی کہ اگر خدا نے اسے بیٹے سے نوازا تو وہ ازراہ نیاز مندی آگرے سے اجمیر تک کا سفر پیدل طے کریں گے، جو آگرے سے ان کے روضہ مبارک تک کا سفر 140 کوس پر تھا، فتح پور سیکری میں ایک پہاڑی پر حضرت شیخ سلیم چشتیؒ رہا کرتے تھے، اکبرکو ان سے بھی ایک والہانہ عقیدت تھی۔ شیخ سلیم ایک عالم جذب میں رہا کرتے تھے اور زندگی کے مختلف مراحل طے کرچکے تھے۔
قرب و جوار کے لوگوں کا شیخ سلیم پر بے پناہ اعتقاد تھا۔ شہنشاہ اکبر ان کی خدمت میں حاضر ہوئے اور جب وہ جذب کے عالم میں تھے، ان سے پوچھا کہ ’’ ان کے کتنے بیٹے ہوں گے‘‘ شیخ نے جواب دیا ’’ اللہ پاک جو بغیرطلب کے عطا فرماتا ہے، تم کو تین فرزندوں سے نوازے گا‘‘ اکبر نے کہا کہ ’’ وہ اپنے پہلے فرزندکو برکت، تربیت اور توجہ کے لیے شیخ کے دامن میں ڈال دیں گے، تاکہ شیخ کی عنایات اور شفقتوں کے سائے میں وہ بڑا ہو۔‘‘ شیخ نے اس خیال کو منظور فرمایا اورکہا ’’ مبارک ہو، میں اسے (ہونے والے بیٹے کو ) اپنا نام دیتا ہوں۔‘‘ جہانگیرکی پیدائش کے بعد اس کا نام سلیم رکھا گیا، لیکن ازراہ عقیدت اکبر نے کبھی اپنے بیٹے کو نام سے نہ پکارا کہ یہ ان کے مرشد کا نام تھا، اکبر جہانگیرکو ’’شیخو بابا ‘‘ کہہ کر بلاتے تھے۔ شہنشاہ اکبر نے موضع سیکری کو جو جہانگیرکی جائے پیدائش تھا، اپنے لیے مبارک تصورکرتے ہوئے دارالسلطنت بنا دیا، چودہ پندرہ سال کے عرصے میں وہ پہاڑی جو درندوں سے بھری رہتی تھی، شہر میں تبدیل ہوگئی۔ ہم نے بھارت کے سفرکے دوران اس پہاڑی پر جس کی سو سیڑھیاں ہیں،کئی بار دیکھا، مزار پہ فاتحہ پڑھی اور دلفریب قوالیاں سنیں۔
جہانگیر نے اس تزک میں یوں لکھا ہے کہ ’’ اس تزک میں جب بھی نام صاحب قرآن کا آئے تو اس سے مراد تیمورگورگان ہے۔ جب فردوس مکانی آئے تو بابر بادشاہ، جب جنت آشیانی کا آئے تو ہمایوں بادشاہ اور جب عرش آشیانی کا ذکر آئے تو اس سے مراد میرے والد محترم جلال الدین محمد اکبر بادشاہ غازی سے ہے۔‘‘
ایک اور جگہ کہتے ہیں’’ اپنی تخت نشینی کے فوراً بعد میں نے پہلا حکم جاری کیا کہ ایک زنجیر عدل لٹکا دی جائے، تاکہ جو لوگ عدلیہ میں سرگرم عمل ہیں اور اپنے کام میں کوتاہی کر رہے ہیں یا ریاکاری سے کام لے کر انصاف میں تاخیر کررہے ہیں تو مظلوم افراد زنجیر ہلا کر ان کی کوتاہیوں کی طرف ہماری توجہ مبذول کرا سکیں۔ میں نے حکم دیا کہ خالص سونے کی زنجیر بنائی جائے، جو تیس گز لمبی ہو اور جس میں ساٹھ گھنٹیاں لگی ہوں۔ اس کا ایک سرا آگرہ کے قلعہ شاہ برج کے کنگورے سے بندھا تھا اور دوسرا دریا کے کنارے سنگ میل سے منسلک تھا۔‘‘
’’ پرویز 34 اکبری میں خسرو کی ولادت کے دو سال بعد کابل میں صاحب جمال کے بطن سے پیدا ہوا تھا۔ صاحب جمال زین خاں کو کہ کی چچازاد بہن تھیں جن کا مقام اور رتبہ مرزا کوکہ کے برابر تھا۔ ان کے کئی بچے ولادت کے بعد وفات پا گئے۔
موٹا راجہ کی بیٹی جگت گو سائیں کے بطن سے سلطان خرم ( شاہ جہاں) 36 جلوس اکبری 999ھ کے مطابق لاہور میں پیدا ہوا تھا۔ اس کی پیدائش سے ایک عالم خرم ہوا، جب وہ بتدریج بڑا ہونے لگا تو اس کے اوصاف سامنے آنے لگے۔ وہ میرے اور بچوں کے مقابلے میں میرے والد کی طرف زیادہ متوجہ تھا، وہ اس سے بے حد خوش رہتے تھے اور اس کی خدمات کی قدرکرتے تھے، وہ اس کی بار بار تعریف کرتے تھے، وہ اس کو اپنا اصل بچہ مانتے تھے۔ خرم کی ولادت کے بعد اور چند بچے پیدا ہوئے جو سن طفولیت میں انتقال کر گئے۔ تب ایک ماہ کے اندر میری خواص سے دو اور بیٹے پیدا ہوئے، ان میں سے میں نے ایک کا نام جہاں دار اور دوسرے کا نام شہریار رکھا۔‘‘
جہانگیرکے دو بچے اور بھی پیدا ہوئے تھے جو خرم سے بڑے تھے۔ ایک کا نام خسرو تھا جو راجہ مان سنگھ کی پھوپھی کے بطن سے پیدا ہوا تھا اور بیٹی کا نام سلطان النسا بیگم تھا، یہ جہانگیرکی پہلی اولادیں تھیں اور شہزادہ خسرو ہی کی آنکھوں میں نور جہاں نے سلائی پھروا دی تھی اور اپنی بیٹی جو اس کے پہلے شوہر شیرافگن سے تھی کا نکاح شہزادہ شہریار سے کروا دیا تھا اور اپنی ساری طاقت شہریارکو بادشاہ بنانے میں صرف کردی لیکن کامیاب نہ ہوئی۔ ’’ میں نے یاترداس کو جسے میرے والد کے عہد میں رائے رایان کا خطاب حاصل تھا راجہ بکرما جیت کے خطاب سے سرفرازکیا، آخر الذکر ہندوستان کے عظیم راجاؤں میں سے ایک تھا اور اسی کے عہد میں فلکیاتی رسدگاہیں ہندوستان میں قائم ہوئی تھیں۔‘‘
اور ذرا اب یہ پڑھیے!
’’ ایک دن اتفاقاً امیرالامرا شریف خان نے اپنے ایک جملے سے میری طبیعت خوش کردی، اس نے کہا تھا ’’ ایمانداری اور بے ایمانی کا تعلق صرف نقد اور مال تک مخصوص نہیں ہے بلکہ اپنے دوستوں کی تعریف و توصیف کرنا جس کے وہ اہل نہیں اور بیگانوں کی اہلیت اور لیاقت کو چھپانا بھی بے ایمانی ہے۔ حقیقتاً حق گوئی کا تقاضا ہے کہ آشنا اور بیگانہ کے متعلق سچ اور اصل بات بتلائی جائے۔‘‘
’’جس زمانے میں حضرت عرش آشیانی کشمیر گئے تھے، دریا کے کنارے ایک قلعہ تعمیر کروایا تھا، گوجروں کو جوگرد و نواح میں چوری اور رہزنی کرتے تھے لاکر اس قلعے میں آباد کیا تھا، چونکہ یہ جگہ گوجروں کا مسکن تھی، اکبر نے اسے ایک الگ پرگنہ بنا دیا اور اسے گجرات کا نام دیا،کہا جاتا ہے کہ گوجر ایک ذات ہے جوکسب اورکم کام کرتے ہیں اور دودھ دہی پرگزارا کرتے ہیں۔‘‘
مغل بادشاہ داد و دہش میں بھی بہت آگے تھے وہ آئے دن صدقہ و خیرات کے نام پر سونا چاندی غریبوں میں تقسیم کیا کرتے تھے، شہزادوں، شہزادیوں اور بادشاہوں کے وزن کے مطابق سونا چاند ی اور جواہرات تول کر غربا و مساکین میں تقسیم کیے جاتے تھے۔ اس کی ایک جھلک تزک جہانگیری میں بھی دیکھیے یوں تو اس تزک میں اور تزک بابری دونوں میں اکثر و بیشتر اس داد و دہش کا ذکر ملتا ہے۔ شاید یہی غریب پروری تھی، جس کی بنا پر مغلیہ خاندان نے ایک طویل عرصے تک ہندوستان پر حکومت کی اور پورے برصغیر میں اپنے عہدکے نشانات چھوڑے۔ آگرہ، دلی،لاہور، فتح پور سیکری اور دیگر مقامات پر مغلوں کی بنائی ہوئی عمارات آج تک موجود ہیں۔ صرف مقبرہ ہمایوں اور تاج محل سے بھارت کو ایک کثیر زرمبادلہ حاصل ہوتا ہے۔ مغل تھے بڑے دل والے۔
’’ میرے والد محترم کا قاعدہ تھا کہ سال میں دو بار ان کا وزن کیا جائے۔ ایک شمسی اور دوسرا قمری حساب ہے۔ شہزادوں کا وزن شمسی حساب کے مطابق ہوتا تھا۔ مزید برآں اس سال جو میرے بیٹے خرم کا سولہواں قمری سال کا آغاز تھا اور منجموں اور جوتشیوں نے یہ عرض کیا تھا کہ اہم واقعہ، اس کے (خرم) زائچے کے حساب سے رونما ہوگا،کیونکہ شہزادے کی صحت اچھی نہیں تھی۔ میں نے حکم دیا کہ شہزادے کو ضابطے کے مطابق سونے چاندی اور دوسری دھاتوں میں تولا جائے اور انھیں فقرا اور ضرورت مندوں میں تقسیم کر دیا جائے۔ پورا دن بابا خرم کی رہائش گاہ پر تفریح اور خوش گپیوں میں گزرا اور اس کی بہت ساری نذریں قبول کی گئیں۔‘‘
(جاری ہے۔)