[ad_1]
کراچی: ماہرین توانائی نے تحقیق کے ذریعے دو بڑے پراجیکٹ سے حاصل ہونے و الی بجلی کے پوشیدہ نقصانات سے فی یونٹ لاگت 50روپے سے زائد ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہائیڈروپاور منصوبے ملک کی معیشت، ماحول اور سماجیات کے لیے نقصان دہ ہیں۔
کراچی میں ہائیڈروپاور کی اصل لاگت کے موضوع پر ورکشاپ سے خطاب کرتے ہوئے ہائیڈرولوجی اور آبی وسائل کے ماہر ڈاکٹر حسن عباس نے کہا کہ دنیا بھر میں بڑے آبی ذخائر (ڈیم) کو ختم کرنے کا اصولی فیصلہ کیا گیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ترقی یافتہ ملکوں میں چھوٹے ڈیم یومیہ بنیادوں پر ختم کیے جا رہے ہیں تاکہ پانی کے قدرتی بہاؤ اور زیر زمین ذخائر قدرتی طریقے سے چارج کیے جاسکیں۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان میں بھی ڈیمز بنانے کے بجائے پانی کے قدرتی بہاؤ کو رواں رکھنے کی ضرورت ہے تاکہ ڈیمز کی تعمیر سے ہونے والے ماحولیاتی نقصانات روکے جاسکیں بالخصوص تیزی سے معدوم ہونے والے انڈس ڈیلٹا اور اس سے جڑی زندگی کو مٹنے سے بچایا جاسکے۔
ڈاکٹر حسن عباس نے کہا کہ بڑے آبی ذخائر کی پوشیدہ لاگت بجلی کی پیداواری لاگت میں شامل نہیں کی جاتی جن میں ڈیموں کی سماجی، معاشی اور ماحولیاتی لاگت شامل ہے۔
انہوں نے کہا کہ ان عوامل کی لاگت کو نظر انداز کیے جانے کی بنا پر پانی سے بننے والی بجلی کو سب سے سستی بجلی سمجھا جاتا ہے تاہم تحقیق سے ثابت ہوا کہ پاکستان کے دو بڑے ڈیم تربیلا اور نیلم جہلم سے حاصل ہونے والی بجلی اس کے ٹیرف سے کئی گنا زیادہ ہے۔
اپنی تحقیق کا حوالہ دیتے ہوئے ڈاکٹر حسن عباس نے کہا کہ بڑے آبی منصوبوں کی مجموعی لائف سائیکل لاگت کو مدنظر رکھا جائے تو یہ سراسر خسارے کا سودا ہے، جس سے ماحولیات اور سماج کو پہنچنے والے نقصانات کا کبھی ازالہ نہیں ہوسکتا۔
تحقیق کے مطابق تربیلا ڈیم کی پوری مدت میں ماحول اور معاشرے کو 350 ارب ڈالر کا نقصان پہنچے گا، جس میں صرف ماحولیاتی اثرات کی لاگت کا تخمینہ 50ارب ڈالر لگایا گیا ہے۔
انہوں نے تحقیق میں بتایا ہے کہ طرح تربیلا ڈیم سے بننے والی بجلی کی اصل لاگت 53.61 روپے بنتی ہے، تربیلا ڈیم سے بننے والی بجلی ماحول دوست نہیں ہے اور نہ ہی اس سے ملک کے آب پاشی کے نظام کو کوئی فائدہ ہے، یہ ڈیم ملک کی معیشت کے لیے بڑے آبی ذخائر کے معاشی نقصانات کی ایک مثال ہے۔
ڈاکٹر حسن عباس نے اپنی تحقیق کی بنیاد پر دعویٰ کیا کہ نیلم-جہلم ہائیڈرو پراجیکٹ کی ٹوٹل لائف سائیکل لاگت 26ارب ڈالر ہے جو 50 سال کے عرصے پر محیط ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ نیلم-جہلم منصوبے سے سالانہ 4360 گیگا واٹ بجلی پیدا ہوگی، ٹرانسمیشن اور ڈسٹری بیوشن کے 18فیصد نقصانات کے بعد صارفین تک 3575گیگا واٹ بجلی سال میں پہنچے گی اور اپنی 50 سال کی پوری مدت میں یہ منصو بہ 179ارب یونٹس بجلی پیدا کرے گا۔
انہوں نے بتایا کہ اس منصوبے کی ٹوٹل لائف سائیکل لاگت کو شامل کیا جائے تو فی یونٹ لاگت 50.55روپے بنتی ہے، اس لحاظ سے یہ منصوبہ بھی ملک کی معیشت، ماحول اور سماجیات کے لیے نقصان دہ ہے۔
ڈاکٹر حسن عباس نے کہا کہ بڑے منصوبوں کے لیے عالمی اداروں سے فنڈنگ لی جاتی ہے اور غیرملکی ماہرین ہی ان منصوبوں کا ڈیزائن تیار کرتے ہیں جس میں مقامی آبادی سے مشاورت نہیں کی جاتی، بڑے پیمانے پر نقل مکانی ہوتی ہے، آبادیوں کو صدیوں پرانے اپنے آبائی علاقے چھوڑنا پڑتے ہیں، جس کے صدمے اور دکھ کا مالی تخمینہ لگانا ناممکن ہے۔
انہوں نے کہا کہ پانی کے انتظام کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے پانی کی کمی پوری کرنے کے لیے دریا کی سطح کے نیچے ریت میں جذب شدہ پانی کی وافر مقدار کو نکالا جاسکتا ہے، جس سے پانی کی طلب پوری کی جاسکتی ہے۔
ڈاکٹر حسن عباس کا کہنا تھا کہ بجلی کی پیداوار کے لیے بھی متبادل توانائی کے ذرائع کو ترقی دینا ضروری ہے۔
[ad_2]
Source link