[ad_1]
وزارت خزانہ کے مطابق، سرکاری بینکوں جیسے ایس بی آئی نے پچھلے 5 سالوں میں 1.55 لاکھ کروڑ روپے کا قرض ’رائٹ آف‘ کیا، جن میں سے 1.09 لاکھ کروڑ روپے کی ریکوری کی گئی
ملک میں گزشتہ 5 سالوں کے دوران لاکھوں-کروڑوں روپے کے قرض بٹّے کھاتے میں ڈالے گئے۔ اس بارے میں وزارت خزانہ نے پارلیمنٹ میں پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں کہا۔ بٹّے کھاتے میں جو رقم ڈالے گئے اس میں سب سے زیادہ رقم ایس بی آئی کی جانب سے ڈالا گیا ہے۔ ساتھ ہی وزارت خزانہ نے یہ بھی واضح کر دیا کہ بٹّے کھاتے میں ڈالے گئے رقم کو قرض معاف کرنا نہیں کہا جا سکتا ہے۔
’’کیا بینک کی جانب سے لوگوں کے لاکھوں-کروڑوں روپے کا قرض معاف کیا جا رہا ہے؟ وزارت خزانہ نے اس سوال کے جواب میں جو اعداد و شمار پیش کیے ہیں۔ ان کے مطابق ایس بی آئی جیسے سرکاری بینکوں نے گزشتہ 5 سالوں کے درمیان 1،55،000 کروڑ کا روپے کا قرض ’رائٹ آف‘ کیا یعنی اسے بٹّے کھاتے میں ڈال دیا گیا۔ ان میں سے تقریباً 1،09،000 کروڑ روپے کی ریکوری بھی کی گئی ہے۔ اسی طرح کئی سرکاری اور نجی بینکوں کے اعداد و شمار بھی سامنے آئے ہیں جن میں لاکھوں-کروڑوں روپے کا لون ’رائٹ آف‘ کیا گیا ہے۔ ساتھ ہی ان کا ایک بڑے حصہ این پی اے ریکوری کے تحت وصول کیا گیا ہے۔
پارلیمنٹ میں مرکزی حکومت نے ایک اور سوال کے جواب میں جانکاری دیتے ہوئے کہا کہ ’’سرکاری بینکوں کی جانب سے قرضداروں کو دیے گئے قرض کو معاف نہیں کرتی ہے۔‘‘ آر بی آئی کے ہدایات اور بینکوں کے بورڈ کے ذریعہ تیار کی گئی پالیسی کے مطابق غیر فعال اثاثے (این پی اے) کو بٹّے کھاتے (رائٹ آف) میں ڈال دیتے ہیں۔ اس طرح کے بٹے کھاتے میں ڈالنے سے قرضداروں کی واجبات معاف نہیں ہوتی ہے۔ اس لیے بٹے کھاتے میں ڈالنے سے قرضداروں کو کوئی بھی غیر مناسب فائدہ نہیں ہوتا ہے۔
حکومت اور آر بی آئی نے ڈیفالٹرز سے این پی اے کی وصولی اور کم کرنے کے لیے بہت سے اہم اقدامات کیے ہیں۔ اس وجہ سے گزشتہ 5 مالی سالوں کے دوران شیڈول کمرشیل بینک (ایس سی بی) کے ذریعے کل 6،82،286 کروڑ روپے وصول کیے جا چکے ہیں۔ وزارت خزانہ نے اپنے جواب میں یہ بھی کہا ہے کہ این پی اے کو کم کرنے کے لیے قرض دینے کے طریقوں اور این پی اے کی صورت میں ریکوری کے طریقہ کار سے متعلق قوانین بہت سخت بنائے گئے ہیں۔
[ad_2]
Source link