[ad_1]
2010 میں آگرہ شہر میں بجلی کی تقسیم کی ذمہ داری ٹورنٹ پاور کو سونپ دی گئی تھی۔ شیلندر دوبے نے بتایا کہ پاور کارپوریشن کا ریکارڈ ظاہر کرتا ہے کہ 2023-24 میں اس نے 4.36 روپے فی یونٹ کی شرح سے ٹورنٹ کو 2300 ملین یونٹ بجلی فروخت کی، جبکہ کمپنی نے یہ بجلی 5.55 روپے فی یونٹ کی قیمت پر خریدی تھی۔ دوبے کا کہنا ہے کہ “اس سے مالی سال 2023-24 میں پاور کارپوریشن کو 275 کروڑ روپے کا نقصان ہوا۔” انہوں نے مزید کہا کہ پچھلے 14 سالوں میں نجکاری کے اس تجربے سے مجموعی طور پر 2434 کروڑ روپے کا نقصان ہوا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر آگرہ کی بجلی کی فراہمی پاور کارپوریشن کے ہاتھ میں رہتی، تو آج وہاں سے 8 روپے فی یونٹ سے زیادہ کا ریونیو حاصل ہو رہا ہوتا۔
حکومت نے میڈیا کو بغیر دستخط کے جاری کردہ ایک بیان میں دعویٰ کیا کہ ‘ترقی یافتہ اتر پردیش’ کے لیے ‘ترقی پسند سوچ’ کی ضرورت ہے؛ ‘اصلاحات’ کی ضرورت ہے اور ان میں بیشتر ملازمین کی حمایت ہے۔ اس مبینہ پریس ریلیز میں کہا گیا کہ ‘نجی کمپنیاں’ ملازمین کی برطرفی نہ کرنے کے لیے قانونی طور پر پابند ہوں گی۔ تجویز کردہ اصلاحات سے بجلی کی پیداوار میں اضافہ اور قابل تجدید توانائی کا بہتر استعمال ہوگا۔ پی پی پی ماڈل میں نجی کمپنیوں کو زمین کی ملکیت نہیں دی جائے گی۔ زمین کی ملکیت یو پی پی سی ایل ہی کے پاس رہے گی۔
اس بارے میں صحافیوں کے سوالات نہ تو افسران سن رہے ہیں اور نہ ہی وزرا۔ وہ سوالات جو ملازمین اور بجلی کے صارفین اٹھا رہے ہیں، ان پر ان کے دعووں اور جوابوں کا کوئی موقع نہیں دیا جا رہا۔ حکومت میں شاید کوئی بھی ایسا نہیں جو کھلے عام کچھ کہہ رہا ہو یا کہنے کی پوزیشن میں ہو۔
[ad_2]
Source link