وزیراعظم شہباز شریف کی ہدایت پر پاکستانی وفد کی امریکی جیل میں قید ڈاکٹرعافیہ صدیقی سے تقریباً تین گھنٹے تک ملاقات کی۔ وزیرِاعظم شہباز شریف کی ہدایت پر سینیٹر بشریٰ انجم بٹ، سینیٹر طلحہ محمود اور ماہرِ نفسیات ڈاکٹر اقبال آفریدی نے امریکاکے شہر فورتھ ورتھ، ٹیکساس میں واقع جیل میں پاکستانی ڈاکٹر عافیہ صدیقی سے ملاقات کی۔
اس ملاقات کا مقصد ڈاکٹر عافیہ کی رہائی کے لیے ممکنہ قانونی اور سفارتی کوششوں کا جائزہ لینا تھا اور امریکی حکام سے اس پر تبادلہ خیال کرنا تھا۔
وفد نے واشنگٹن ڈی سی میں امریکی حکام سے ملاقاتیں کیں اور انسانی ہمدردی کی بنیاد پر ڈاکٹر عافیہ کی رہائی کے لیے صدر جو بائیڈن سے معافی کی درخواست کی۔
سینیٹر بشریٰ انجم بٹ نے نجی ٹی وی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ وزیرِاعظم پاکستان شہباز شریف کی جانب سے ایک درد ناک خط امریکی صدر جو بائیڈن کو بھیجا گیا تھا، جس میں ڈاکٹر عافیہ کی رہائی کی اپیل کی گئی تھی۔ اس خط کو امریکی کانگریس کے اراکین، سینیٹرز اور اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کے حکام تک پہنچایا گیا۔
وفد نے امریکی حکام سے ملاقاتوں کے دوران اس بات پر زور دیا کہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی انسانی ہمدردی کے تحت ممکن بنائی جا سکتی ہے اور امریکی کانگریس کے بعض اراکین نے اس معاملے میں حمایت کا وعدہ کیا تاہم، کچھ اراکین نے اس درخواست کو مسترد بھی کیا۔
پاکستانی وفد نے ڈاکٹر عافیہ صدیقی سے جیل میں تقریباً تین گھنٹے طویل ملاقات کی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کے ساتھ ملاقات کو اہم پیش رفت سمجھا گیا، جس میں ڈاکٹر عافیہ کی ممکنہ رہائی پر مختلف پہلوؤں پر گفتگو کی گئی۔
سینیٹر بشریٰ انجم بٹ نے بتایا کہ ڈاکٹر عافیہ نے اپنے قید کے دوران گزری مشکلات اور اپنی مذہبی وابستگی پر تفصیل سے بات کی۔ ان کا کہنا تھا کہ انہیں اب بھی انصاف ملنے کی امید ہے اور وہ اللہ کی رحمت پر یقین رکھتی ہیں، ڈاکٹر عافیہ کا ایمان اور حوصلہ دوسرے لوگوں کے لیے ایک مثال ہے۔
ان کا کہنا تھا ڈاکٹر عافیہ نے ملاقات کے دوران ایک نظم بھی پڑھ کر سنائی،جوکہ انہوں نے خود تحریر کی جس سے ان کے مضبوط عزم کا اظہار ہوا۔
ڈاکٹر اقبال آفریدی نے اس بات کا ذکر کیا کہ وفد نے امریکی حکام سے ملاقاتوں کے بعد اس امید کا اظہار کیا ہے کہ امریکی صدر جو بائیڈن کی موجودہ حکومت کی مدت ختم ہونے سے قبل ڈاکٹر عافیہ کی رہائی ممکن ہو سکتی ہے۔
سینیٹر بشریٰ انجم بٹ نے بتایا کہ حالیہ دنوں میں امریکی صدر نے متعدد قیدیوں کی سزا معاف کی ہے اور یہ ممکن ہے کہ 20 جنوری سے قبل ڈاکٹر عافیہ کی رہائی بھی اسی سلسلے کا حصہ بن جائے۔
سینیٹر بشریٰ انجم بٹ نے پاکستانی عوام سے دعا کی اپیل کرتے ہوئے کہا کہ ڈاکٹر عافیہ کی رہائی کے امکانات اب پہلے سے زیادہ روشن ہو گئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ امریکی حکام سے ملاقاتوں میں اس معاملے پر سنجیدگی سے غور کیا جا رہا ہے اور اس کی کامیابی کے امکانات بڑھ گئے ہیں۔
وفد کے رکن ماہر انفسیات ڈاکٹر اقبال آفریدی نے کہا کہ “ڈاکٹر عافیہ 20 سال سے اپنے بچوں سے دور ہیں اور 16 سال کی سزا گزار چکی ہیں، یہ انسانی ہمدردی کا معاملہ ہے اور اب وقت ہے کہ انہیں ریلیف دیا جائے تاکہ ناصرف پاکستان کی 25 کروڑ عوام خوش ہو، بلکہ امریکا کا پورے مسلم دنیا میں مثبت امیج بھی بنے۔”
انہوں نے اس بات پر بھی زور دیا کہ اگر ڈاکٹر عافیہ کا مناسب علاج کیا جائے اور انہیں اہلخانہ کی حمایت حاصل ہو تو وہ معاشرتی سطح پر ایک مفید فرد بن سکتی ہیں۔
وفد کے رکن ڈاکٹر آفریدی نے امید ظاہر کی کہ امریکی حکومت جلد ہی ڈاکٹر عافیہ کو ریلیف دے گی، خاص طور پر جب امریکی صدر جو بائیڈن نے حالیہ دنوں میں اپنے بیٹے اور دیگر افراد کو معاف کیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ “ہماری کوشش یہ ہے کہ یہ معاملہ انسانی حقوق کی بنیاد پر حل ہو، اور ہمیں امید ہے کہ امریکی حکومت جلد ہی اس پر فیصلہ کرے گی۔
اس ملاقات نے نہ صرف پاکستانی کمیونٹی کو نئی امید دی بلکہ اس سے عالمی سطح پر انسانی حقوق کے تحفظ اور رحم کی اپیلوں کے حوالے سے بھی اہم سوالات اٹھائے ہیں۔ پاکستانی حکام اور امریکی حکام کے درمیان اس کیس پر جاری بات چیت سے یہ امید کی جا رہی ہے کہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی ممکن ہو سکے گی۔