[ad_1]
ایرانی سیاسی تجزیہ کار مریم محمدی نے کہا کہ ’’ایران کی خواتین نے اب خود کو کسی بھی قسم کے اختیارات سے سمجھوتہ اور رواداری کو ختم کر دیا ہے۔ ان کے سامنے اب صرف دو راستے ہیں آزادی یا موت۔‘‘
ایران کی پارلیمنٹ نے حجاب سے متعلق ایک سخت قانون کو منظوری دے دی ہے۔ اس قانون کے مطابق صحیح طریقے سے حجاب نہ پہننے یا حجاب کی مخالفت کرنے والی خواتین کو سخت سزا دی جائے گی۔ ایران کے صدر مسعود پیزشکیان کی جانب سے کئی دفعہ اس طرح کی پابندیوں پر تنقید کے باوجود قانون سازوں نے یہ قانون پاس کر دیا۔ پچھلے کچھ دنوں سے ایران میں حجاب کو لے کر مخالفت دیکھی جا رہی تھی، اس وجہ سے یہ سخت قانون پاس کرنا پڑا۔ ایرانی عدلیہ نے سابق صدر ابراہیم رئیسی کی ہدایات پر عمل کرتے ہوئے ’حجاب اور عفت‘ بل کا مسودہ تیار کیا تھا۔ ایسا نہیں ہے کہ ایران میں حجاب کے حوالے سے اس سے پہلے کوئی قانون نہیں تھا، لیکن اس بار قانون کو سختی سے لاگو کرنے کی بات کہی گئی ہے۔ 1979 سے ہی ایران میں عورتوں کو عوامی مقامات پر سر ڈھانپنے کی ہدایت دی گئی تھی۔ حالانکہ 2022 میں ایرانی-کرد خاتون مہسا امینی کی پولیس حراست میں موت کے بعد سے حجاب نہ پہننے والی عورتوں کی تعداد میں خاصا اضافہ ہوا ہے۔
آئیے اب جانتے ہیں کہ آخر حجاب سے متعلق نیا قانون کیا ہے۔ ایرانی میڈیا رپوٹس کے مطابق یہ قانون عوامی مقامات اور سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر صحیح طریقے سے حجاب نہ پہننے یا پوری طرح سے حجاب کو ترک کرنے والی خواتین پر 20 ماہ کی تنخواہ کے برابر جرمانہ لگانے کی اجازت دیتا ہے۔ یہ جرمانہ 10 دنوں کے اندر ادا کرنا ہوگا۔ ایسا نہ کرنے کی صورت میں اس خاتون کو متعدد اقسام کی سرکاری خدمات، مثلاً پاسپورٹ کی تجدید یا اجراء، ڈرائیونگ لائسنس کا اجراء اور ایگزٹ پرمٹ جاری کرنے سے محروم کر دیا جائے گا۔
اس قانون کے تحت ادراوں کو پولیس کی مدد کے لیے سی سی ٹی وی فوٹیج مہیا کرانی ہوگی جس سے ان خواتین کی پہچان کی جا سکے۔ اگر اداروں نے ایسا کرنے سے انکار کر دیا تو ان پر بھی جرمانہ عائد کیا جائے گا، یا ادارہ کو ہی معطل کر دیا جائے گا۔ ساتھ ہی یہ قانون ’عریانیت‘ یا پردہ نہ کرنے کو فروغ دینے والے لباس، مجسمے اور کھلونے جیسی اشیاء کے ڈیزائن یا تشہیر کو بھی مجرمانہ عمل قرار دیتا ہے۔ اس کے علاوہ وزارت صنعت، کانکنی اور تجارت کو یہ ذمہ داری دی گئی ہے کہ وہ کپڑوں کے مینوفیکچررز اور سپلائرز پر نظر رکھے۔ ساتھ ہی اس بات کو یقینی بنائیں کہ کپڑے حجاب سے متعلق قوانین کے عین مطابق ہوں۔
حجاب کے متعلق ایران کے نئے قانون پر تنقید کرتے ہوئے ایرانی سیاسی تجزیہ کار مریم محمدی کا کہنا ہے کہ اس قانون کا مقصد خواتین کی جدوجہد کو روکنا ہے۔ محمدی کے مطابق یہ قانون خواتین کے مطالبات کو روکنے، انتظامیہ کی نظریاتی سوچ کی حوصلہ افزائی کرنے، روز مرہ کی زندگی میں تنازعات پیدا کر کے معاشرے کی سوچ کو ختم کرنے اور خواتین کی انقلابی صلاحیتوں کو کمزور کرنے کی کوشش ہے۔ مریم محمدی نے یہ بھی کہا کہ ’’ایران کی خواتین نے اب خود کو کسی بھی قسم کے اختیارات سے سمجھوتہ اور رواداری کو ختم کر دیا ہے۔ ان کے سامنے اب صرف دو راستے ہیں آزادی یا موت۔‘‘
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
[ad_2]
Source link