اسلام آباد:
تجزیہ کار شہباز رانا کا کہنا ہے کہ حکومت کے قول و فعل میں ویسے ہی بڑا تضاد سامنے آ رہا ہے، جس قسم کے اہداف رکھے جا رہے ہیں اور جو حکومت کی پالیسیاں ہیں اگر ان کو سامنے رکھا جائے تو پھر تو پاکستان کی معیشت کا حجم 2035 تک ایک ٹریلین ڈالر لے جانے کا ہدف حاصل کرنا ناممکن ہے۔
ایکسپریس نیوز کے پروگرام دی ریویو میں گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ یہ کام کرنے سے پہلے دوتین کام کرنا پڑیں گے، حکومت جو کرنا چاہتی ہے اس کے لیے جو پالسیاں درکار ہیں وہ تبدیل کرنا پڑیں گی، دوسرا یہ کہ اپنے آپ پر انحصار کرنا پڑے گا، ڈیرکن پلان کی ناکامی کے بعد وزارت منصوبہ بندی نے 2024 سے 2029 تک کا ایک نیا پانچ سالہ منصوبہ بنایا ہے۔
اس کا مقصد پاکستان کی معیشت کواگلے دس سال میں 2035 تک ایک ٹریلین ڈالر تک لے کر جانا ہے، وزیراعظم نے ابھی تک اس کا اعلان نہیں کیا، بقول وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال اگر حکومت اس کا نفاذ نہیں کرتی تو 2035تک پاکستان کی معیشت صرف 500 ارب ڈالر کی اکانومی بنے گی، تاہم 39 ارب روپے لاگت کی سوشل میڈیا فائر وال نئے پانچ سالہ اقتصادی ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہے۔
سوشل میڈیا سنسر شپ اور اقتصادی خوشحالی کے درمیان کسی ایک کا انتخاب کرنا ہو گا، تجزیہ کار کامران یوسف نے کہا کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان جمعرات کے روز ایک چھوٹا سا بریک تھرو ہوا ہے، کئی ماہ کے تعطل کے بعد دونوں ممالک کے درمیان رابطہ بحال ہوا ہے، کابل میں پاکستان کے ناظم الامور اور افغان عبوری وزیر دفاع ملا یعقوب جو ملا عمر کے بیٹے بھی ہیں کے درمیان ایک اہم میٹنگ ہوئی ہے۔
اس ملاقات میں چین نے اہم کردار ادا کیا ہے، لیکن سب سے اہم سوال یہی ہے کہ کیا پاکستان کا جو طالبان سے مطالبہ ہے کہ افغانستان میں موجود ٹی ٹی پی، حافظ گل بہادر یا دوسرے گروپوں کے دہشت گردی کے ٹھکانوں کے خلاف کارروائی کرے تو کیا وہ ان کے خلاف کارروائی کریں گے۔